اِفطار پارٹیاں

ہندوستان میں افطار پارٹیاں کہیں سیاسی اتحاد کے لیے ہورہی ہیں تو کہیں ووٹ بینک کو مضبوط بنانے کے لیے تو کہیں ملک کی مذہبی روا داری کو تقویت دینے کے لیے ہورہی ہیں ۔ کسی کو ان افطار پارٹیوں کے حوالے سے نفرت پھیلانے کا بہانہ مل رہا ہے ۔ جہاں تک مذہبی روا داری کو فروغ دینے کا سوال ہے یہ ہمارے ملک کی برسوں پرانی قدیم تاریخ رہی ہے ۔ یہاں عیدوں ، تہواروں اور خاص موقعوں پر ہندوستانی عوام مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے رہے ہیں ۔ افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہوئے مذہبی روا داری کو فروغ حاصل ہوا ہے ۔ مگر جب سے سیاسی و سماجی نکتہ نظر سے افطار پارٹیاں منعقد ہورہی ہیں اس سے عوام الناس میں اس پاکیزہ جذبہ کے تعلق سے گمراہ کن پروپگنڈے کرنے والوں نے اپنا ناپاک رول بھی ادا کرنا شروع کیا ہے ۔ سیاسی پارٹیوں کی افطار دعوت کی خاص نوعیت ہوتی ہے اور مذہبی روا داری کے جذبہ سے منعقد ہونے والی دعوت افطار کو اہمیت دی جاتی ہے کیوں کہ اس میں ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذہب کے افراد کے مذہبی جذبہ کا احترام کرتے ہیں ۔ حال ہی میں اترپردیش کے دریائے گومتی کے کنارے کامیشور مندر میں افطار پارٹی کا اہتمام کیا گیا ۔ یہاں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کا غیر معمولی نظارہ دیکھا گیا ۔ لکھنو میں شائد یہ پہلا موقع رہا کہ مندر میں افطار پارٹی کا اہتمام کیا گیا ۔ یہاں اب تک ایسا کیوں نہیں ہوا یہ غور طلب امر ہے ۔ لیکن بی جے پی حکمرانی والی ریاست میں یہ تبدیلی لوگوں کے لیے باعث حیرت بھی ہے کیوں کہ بی جے پی کے کچھ قائدین ایک طرف مسلمانوں اور ان کے مذہبی امور کا احترام کرنے کا مظاہرہ کررہے ہیں تو دوسری طرف بی جے پی کے چند کٹر پسند نیتاؤں نے مسلم دشمنی میں زہر افشانی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا ہے ۔ شہر حیدرآباد کے ایک حلقہ اسمبلی کے بی جے پی رکن اسمبلی نے ان افطار پارٹیوں پر شدید ریمارک کیا جب کہ ان کی پارٹی کی جانب سے پارٹی ہیڈکوارٹر پر دعوت افطار کا بھی انتظام کیا گیا تھا ۔ بی جے پی کے اندر ہی ہندوستانی مذہبی روا داری کے تعلق سے دورائے پائی جاتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی ایک طرف خود کو سیکولر بنانے کی کوشش کررہی ہے دوسری طرف اپنے لیڈروں کے ذریعہ ہندوؤں کے ووٹ بینک کو محفوظ رکھنے کے جتن کئے جارہے ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں نے افطار پارٹی کا استعمال ایک مقصد کے لیے کرنا شروع کیا ہے تو اس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے اور ملک کے اندر سیکولرازم کی جڑیں کھوکھلی کرنے والی طاقتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گی ۔ دہلی میں منعقد ہونے والی سیاسی دعوت افطار خالص سیاسی مفادات کے گرد گھومتی ہیں ۔ بعض سیاسی پارٹیوں میں سلیقہ کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے ۔ ایسے مواقع کے وہ منتظر رہتی ہیں جیسا کہ یو پی اے چیرپرسن سونیا گاندھی نے قومی سطح پر مخالف بی جے پی اتحاد بنانے کے لیے افطار پارٹی کا اہتمام کیا جس میں تقریباً اپوزیشن پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ این سی پی صدر شردپوار نے اپوزیشن کو متحد کرنے کی مہم بھی شروع کردی ہے ۔ 2019 لوک سبھا انتخابات سے قبل ہم خیال پارٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی جدوجہد ہورہی ہے ۔ شیوسینا ، بی جے پی میں اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیوسینا کو مخالف بی جے پی اتحاد میں شامل ہونے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مہاراشٹرا میں سیاسی منظر بدل جائے گا ۔ سونیا گاندھی کی افطار پارٹی میں شریک قائدین ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں لیکن پارٹی کے سینئیر لیڈر سابق صدرجمہوریہ پرنب مکرجی ہی اس پارٹی میں شریک نہیں ہوئے ۔ سونیا گاندھی کی دعوت افطار کے بعد صدر کانگریس راہول گاندھی نے بھی افطار پارٹی کا انعقاد عمل میں لایا ۔ کانگریس نے دو سال کے وقفہ کے بعد افطار پارٹیوں کا پھر سے آغاز کیا ہے ۔ کانگریس سے بچھڑ کر چلے جانے والوں کو یکجا کرنے سے پارٹی کی عظمت رفتہ بحال ہوسکے گی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ ممتا بنرجی شرد یادو اور کئی قائدین کانگریس سے ہی وابستہ تھے اب انہوں نے اپنی سیاسی چوکیاں بنالی ہیں ۔ ان کے درمیان اب سیاسی اتحاد کی باتیں ہورہی ہیں ۔ بات جوبھی ہو بہرحال انجام ایک دن سیاسی جدائی ہی ہے ۔ اس لیے کانگریس کو اپنی ساکھ بچانے کی فکر کرنی چاہئے ورنہ وہ موم بن جائے گی تو لوگ چھو کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے ۔۔