مسلمانو ! اپنی بدمستی سے باز آؤ ، خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ ، تنگ نظری کے خول سے نکل کر آفاقی وسعت نظری کے حامل ہوجاؤ ۔ سرزمین ہندوستان پھر سے سوکھ گئی ہے ، ظلم و زیادتی ، نفرت و عداوت ، فرقہ وارانہ عصبیت کی مسموم فضاء نے اس کے گلشن کو تباہ کردیا ، اس کی رونق و بہار کو ختم کردیا ، اس کے چہرے سے مسکراہٹ کو چھین لیا ۔ یہ سرزمین عدل و انصاف کی آرزو میں مری جارہی ہے ، پیار و محبت کی آس میں تڑپ رہی ہے ۔ یہ سرکشوں اور شدت پسندوں سے نالاں ہے ، نفرت و عداوت کے بیج بونے والوں سے بے چین و مضطرب ہے ۔ مایوسی میں اس کی نگاہیں صرف اسلام کی طرف ٹکی ہوئی ہیں ، یہ زمین مسلمانوں سے پُر اُمید ہے ۔
مسلمانو ! تمہارے پاس ایک عجیب سا خزانہ موجود ہے ، تمہارے سینے میں ایسی طاقت و قوت ہے جس کے سامنے سوپر پاور ممالک کے مہلک ہتھیار بھی عاجز و بے بس ہیں۔ تمہارے دل میں ایمان کی دولت ہے ۔ تمہارے سینے خدائے وحدہٗ لاشریک کی محبت سے معمور ہیں۔ تمہاری زبانیں ذکر خدا سے زمزمہ سنج ہیں ، تمہارا حامی و مددگار خالق کائنات شہنشاہ دوجہاں ، رب العلمین ہے ۔ تمہارے لئے یہ جہاں کیا چیز ہے تم اس فرش پر رہکر عرش والے سے تعلق رکھتے ہو ۔ تم اس زمین میں خالق کائنات کے نائب وجانشین ہو ، تم اﷲ کے خلیفہ ہو ، یہ دنیا تمہارے لئے پیدا کی گئی ہے ، اس زمین کی ہرچیزتمہارے استفادہ کے لئے بنائی ہے ۔
هُوَ الَّـذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَـمِيْعًا… ترجمہ : ’’وہی ذات ہے جس نے تمہارے لئے پیدا کی ہیں وہ تمام چیزیں جو زمین میں موجود ہے ‘‘۔ (سورۃ البقرہ ۲؍۲۹)
اﷲ رب العزت نے تمہارے لئے شمس و قمر اور رات و دن کو تابع و مسخر کردیا ’’وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّـهَارَ ‘‘(سورۃ ابراھیم ؍۳۳)
اﷲ تعالیٰ نے تمکو حاکم و غالب بنایا ، دنیا کو تمہارا خادم بنایا ، دنیا والوں کی حفاظت و صیانت ، نصرت و حمایت کے لئے تمکو منتخب کیا ۔ تم آخری عالمگیر نبی مکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے اُمت ہو ۔ تمکو ساری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے پیدا کیا گیا ہے ۔ تمہارا دین آفاقی ، تمہاری تعلیمات آفاقی اور تمہارا پیغام آفاقی ہے ۔
واضح رہے کہ زمین پر کسی کی اجارہ داری نہیں اور کوئی زمین ہمیشہ کسی کی مملوکہ و مقبوضہ نہیں رہی ۔ انقلاباتِ زمانہ کے ساتھ ساتھ زمانہ کے حاکم اور وارث بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی قوم ہمیشہ ایک سرزمین پر سکونت پذیر اور حاکم نہیں رہی بلکہ ایک ملک کے باشندہ کا دوسرے ملک کو ہجرت کرنا اور دوسرے ملک کے ساکن کا پہلے ملک کو اپنا مسکن بنانا قانون فطرت کی طرح قدیم ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کے قانون میں کسی ملک پر حکمرانی کرنے کیلئے اس کا قدیم سے رہائش پذیر ہونا وجہہ ترجیح نہیں بلکہ حکمرانی کے لئے صلاحیت و قابلیت معتبر ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تحقیق کہ ہم نے تورات کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ میرے نزدیک ( صلاحیت رکھنے والے) بندے زمین ( کی سلطنت) کے وارث ہونگے۔ (سورۃ الانبیاء ؍۱۰۵)
زمین کا سینہ انسان کی طرح تنگ و تاریک نہیں بلکہ وہ اپنے اندر لامتناہی وسعت رکھتا ہے جو بھی اس میں بستا ہے وہ اس کا دل سے استقبال کرتی ہے اور اپنی کوکھ میں اس کو پناہ دیتی ہے جس طرح ماں اپنے بیٹے کو سینے سے چمٹالیتی ہے ۔ مسلمان ہندوستان کی زرخیز زمین کا رُخ کئے تو سرزمین ہند نے مسلمانوں کا استقبال کیا ، اور پسماندہ طبقات پر ظلم و بربریت کا شکوہ کی اور عدل و انصاف ، امن و امان اور بھائی چارہ کی اُمید میں مسلمانوں کو حکمرانی کی دعوت دی ۔ اہل اسلام نے کئی صدیوں تک اس زمین پر حکومت کی ۔ رنگ و نسل ، عقائد و نظریات کے اختلافات کے باوجود سرزمین ہند کو امن و امان ، پیار و محبت کا گہوارہ بنائے رکھا اور جب مسلمانوں میں قائدانہ صلاحیتیں مفقود ہوگئیں تو اﷲ تعالیٰ نے ان کے سروں سے تاج قیادت کو چھین لیا اور برسہا برس بیت جانے کے بعد بھی مسلمان اپنی گمشدہ دولت ، قائدانہ صلاحیت کے حامل نہ بن سکے۔ آج تک مسلم قوم خوداعتمادی ، قوت ارادی ، بلند حوصلگی ، قائدانہ جوہر ، وسیع النظری جیسے اعلیٰ صفات سے محروم ہے اور جزئیات و سطحیات میں اُلجھی ہوئی ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی مقامی یا قومی سطح کی کوئی سیاسی جماعت نہیں جس کا منشور ہندو مسلم ، سکھ عیسائی سب کی فلاح و بہبود کے لئے یکساں ہو۔ ہندوستان میں گرانی، بیروزگاری ، تعلیمی و طبی مسائل ، غذائی اجناس کی قلت ، امن و امان کی برقراری ، فرقہ وارانہ منافرت کا انسداد ، فتنہ و فساد ، قتل و خوں ، جرائم ، رشوت ، زناکاری و بدکاری ، ملازمت و روزگار کے مواقع ، تعلیمی و طبی سہولیات کی فراہمی یہ اور اس طرح دیگر مسائل ہیںکہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے مسلمانوں کو اقدام کرنا چاہئے اور ایسی حکمت عملی و پیش قدمی کرنی چاہئے کہ غیرمسلم کو بھی یقین ہو کہ ان بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے سوائے مسلمانوں کے کسی کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا ۔