مولانا حبیب عبدالرحمن الحامد
اُم عباس ساتویں عباسی خلیفہ مامون رشید ۱۹۸ھ تا ۲۱۸ھ کی بیگم تھیں۔ نہایت ذہین ، فطین ، عالمہ ، فاضلہ خاتون تھیں۔ شعر و شاعری میں بھی درک رکتھی تھی اگرچہ اس کی پرورش خالص بدویانہ ( صحرائی ) ماحول میں ہوئی تھی ۔ مگر قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق صحرائی علاقہ مںے بودباش رکھنے والے کسی علمی اور دینی گھرانے سے تھا ۔ اس کیتعلیم و تربیت بہت عمدگی سے کی گئی تھی ۔ یہی سبب تھا عنفوان شباب کو پہنچنے تک اس کو علم الانساب سے گہری واقیت ہوگئی تھی جس نے مامون کواس سے شادی کرنے پر آمادہ کیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن مامون اپنے چند محافظوں کے ساتھ شکار سیر و تفریح کیلئے نکلا۔ چلتے چلتے شہر سے دور صحرا میں پہنچ گیا ۔ کسی شکار کے پیچھے گھوڑا ڈالا اور ساتھیوں سے بچھڑ گیا۔ شکار تو ہاتھ نہ آیا لیکن دریائے فرات کے کنارے ایک دوشیزہ کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ اس حسین و جمیل دوشیزہ کے چہرے بشرے سے معلوم ہوتا تھا کہ کسی اچھے عرب خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کے کندھے پر پانی کا مشکیزہ تھا جس کے بوجھ تلے وہ دبی جارہی تھی ۔ نشیب سے فراز پر آتے ہوئے مشکیزہ سنبھالنا اس کے لئے مشکل ہوگیا ۔ اس نے مدد کے لئے اپنے باپ کو آواز دی : ’’ابّا دوڑکر آؤ مشکیزہ کا منھ تھام لو اس کے دہانے پر میرا بس نہیں چلتا ، اور یہ میرے قابو سے باہر ہے ‘‘۔ اس کا باپ کہیں دور تھا ۔ اس نے بیٹی کی آواز نہیں سنی البتہ مامون الرشید یہ فصیح و بلیغ کلام سن کر پھڑک اُٹھا اور دوشیزہ کے قریب جاکر کھڑا ہوکر اس سے مخاطب ہوا :اے لڑکی تم خوب عربی بولتی ہو۔
دوشیزہ : کیا میں عرب کی رہنے والی نہیں ہوں ۔
مامون : تمہارا تعلق کسی قبیلے سے ہے؟ دوشیزہ : بنی قضاعہ سے
مامون : بنی قضاعہ کی کس شاخ سے ؟ دوشیزہ : بنی کلب سے ۔
مامومن : ایسے قبیلے میں تم کیوں پیدا ہوئیں ؟
دوشیز : کیوں میرے قبیل کو کیا ہوا ۔ وہ تو بڑی عزت والا ہے ۔ اس پر کوئی الزام نہیں ، مہمان نواز اور تلوار کا دھنی ہے ۔ مگر اے شخص تم کس قبیلے سے ہو ۔
مامون : کیا تم کو انساب سے واقفیت ہے ؟ دوشیزہ : ہاں خوب واقفیت ہے۔
مامون : میں بنو مُضر سے ہوں ۔ دوشیزہ : لیکن کونسا مُضر؟
مامون : جو حسب و نسب کے لحاظ سے سب سے معزز اور معظم ہے ۔
دوشیزہ : میں سمجھ گئی ، تم بنوکنانہ سے ہو ۔ لیکن کنانہ کی کس شاخ سے ۔
مامون : جس کے فرزند شریف اور بردبار ہوتے ہیں ۔
دوشیزہ : ( ہنس کر ) اچھا تو تم قریش سے ہو ۔ لیکن قریش کے کس خاندان سے ۔
مامون : جس کاذکر سب سے اونچا اور جس کا فخر بے مثال ہے ۔
دوشیزہ : خدا کی قسم ، تم بنی ہاشم سے ہو لیکن بنی ہاشم کے کس گھرانے سے ؟
مامون : جس کے گھر سب سے بلند ۔ جس کا قبیلہ سب سے اشرف جس سے اعداء ہاشم ہیبت زدہ تھے ۔
دوشیزہ نے سن کر ادب سے سر جھکالیا اور کہا : السلام علیک یا امیرالمؤمنین پھر اس نے کچھ شعر پڑھے ۔ مامون رشید اس دوشیزہ کی وسعت معلومات اور حاضر جوابی ذہانت سن کر اپنی ملکہ بنانے کاارادہ کرلیا ۔ واپس آکر اپنا پیام بھیجا ۔ دوشیزہ شاہی حرم میں داخل ہوگئی ۔ اور مامون رشید کا بیٹا عباس پیدا ہوا۔ چونکہ مامون الرشید علمی ذؤق رکھتا تھا ۔ اس لئے اُمِ عباس کی بڑی قدر کرتا تھا اور اکثرت علمی گفتگو کیا کرتا تھا ۔