محمد قیام الدین انصاری کوثرؔ
حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا حضور پُرنور احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی سب سے پہلی اہلیہ محترمہ ہیں۔ آپ کا اسم گرامی خدیجہ ، کنیت اُم ہند اور لقب طاہرہ ہے ۔ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کے والد بزرگوار خویلد بنت اسد مکہ کے ایک کامیاب تاجر تھے ۔ قصی حضرت خدیجۃ الکبریؓ کے پردادا اور حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے جد اعلیٰ تھے ۔ حضرت خدیجۃ الکبریؓ عام الفیل سے تقریباً پندرہ سال قبل ۵۵۵ء میں پیدا ہوئیں۔ آپؓ بچپن ہی سے نہایت شریف النفس اور نیک طبع تھیں ۔ اپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اخلاق کی بدولت طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ حضرت خدیجہ ؓکی پہلی شادی ا بو ہالہ تمیمی کے ساتھ ہوئی اور ان سے دو بیٹے پیدا ہوئے : ہالہ اورہند۔ہالہ کا انتقال زمانۂ جاہلیت میں ہی ہوگیا ۔ ہند کو مقام صحابیت بھی حاصل ہوئی ۔ ان کے انتقال کے بعد آپؓ کی دوسری شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی اور ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام بھی ہند تھا۔ اُسی زمانے میں مشہور جنگ حرب الفجار شروع ہوگئی آپ کے والد لڑائی کیلئے نکلے اور اسی معرکہ میں مارے گئے ۔ عتیق بن عابد کا بھی کچھ عرصے بعد انتقال ہوگیا تو آپؓ نے شادی کا خیال دل سے نکال کراپنے والد کی وفات کے بعد ان کی تجارت کو سنبھالناشروع کر دیا۔
آپؓ کے خاندان کا ذریعہ معاش تجارت تھا ۔ آپ نے اپنی خاندانی تجارت کو خود سنبھالا ، تجارت کو جاری رکھنے کیلئے آپؓ کی نظریں ایک ایسے شخص کو تلاش کررہی تھیں جو بیحد ذہین ، راست باز اور امانت دار ہو ۔یہ وہ دور تھا جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی امانت اور دیانت کا پورے عرب میں چرچا تھا اور آپؐ پورے عرب میں ’’امین اور صادق‘‘کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ ؐکو پیغام پہنچایا کہ آپؐ میرا سامانِ تجارت شام لے جائیں تو میں آپ کو دوگنا اجر دوں گی۔آپ ؐ نے اس پیشکش کو قبول فرمایا اور حضرت خدیجہؓ کا سامانِ تجارت شام لے کر گئے۔شام کے اس تجارتی سفر میں حضرت خدیجہؓ کا غلام میسرہ بھی آپؐ کے ساتھ تھا۔ راستے میں راہب والاواقعہ پیش آیا کہ جس نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو دیکھتے ہی فرمایا:’’بلاشبہ یہ نبی ہیں اور آخری نبی‘‘۔سفر سے واپسی پر میسرہ نے سفر کی ساری روداد حضرت خدیجہؓ کے گوش گزار کی اور آپؐ کی صداقت اور امانت کا بھی ذکر کیا۔اس سے حضرت خدیجہؓ کے دل میں آپ ؐسے شادی کی خواہش پیدا ہو گئی۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ آپؓ نے بذات خود اپنا پیغام حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاس بھیجا ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے اُس کو قبول فرمالیا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی جانب سے قبولیت پالینے کے بعد حضرت خدیجہؓ اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلاکر لائیں اور حسب دستور مقررہ تاریخ پر آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم ، آپ کے چچا حضرت حمزہ ، ابوطالب اور خاندان کے افراد حضرت خدیجہؓ کے گھر پر جمع ہوئے ۔ ابوطالب نے خطبۂ نکاح پڑھا ، پانچسو درہم مہر مقرر ہوا ۔ اُس وقت اﷲ کے نبیؐ کی عمر ۲۵ سال اور سیدہ خدیجہؓ کی عمر ۴۰ سال تھی ۔ یہ آپ کی بعثت سے پندرہ سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ نکاح کے پندرہ سال بعد اﷲ تبارک و تعالیٰ نے آپؐ کو نبوت کاتاج پہنایا
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم غار حرا میں جاکر جب یاد الٰہی میں مصروف تھے کہ اﷲ تعالیٰ کے حُکم سے حضرت جبرئیل امین آپؐ کے پاس تشریف لائے یہ پہلی وحی تھی جس کا حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم پر شدید اثر ہوا ۔ آپ نے گھر آکرسارا واقعہ اُم المؤمنین کے گوش گزار کیا ‘ اُس وقت آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو(بربنائے بشریت) دلاسے کی جوضرورت تھی اُسے اُم المؤمنین حضرت خدیجہ کبریٰؓ نے پورا کیا اور آپؐ کے اوصاف ایسے فصیح و بلیغ انداز میں بیان کیے جو اپنی مثال آپ ہیں۔پھر حضرت سیدہ خدیجہؓ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو اپنے چچا کے بیٹے ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں، جس نے سارا واقعہ سن کر کہا:یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا۔ورقہ نے آپ ؐکے نبی ہونے کو بیان کیا تو آپؓ نے آپؐ کی تصدیق کی اور آپؐ پر ایمان لائیں اور سب سے پہلے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی نبوت کی تصدیق کرنے والی بھی حضرت خدیجہ کبریٰؓ ہیں۔
حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا اپنی آخر عمر مبارک تک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی بڑی مددگار رہیں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم جب بھی افسردہ خاطر اور رنجیدہ ہوتے تو اُم المؤمنین آپ ؐ کو دلاسا دیتیں ۔آپؓ کے بطن سے حضرت قاسم‘ حضرت زینب‘حضرت رقیہ‘حضرت اْمّ کلثوم‘ حضرت فاطمہ اور حضرت عبداللہ(رضی اللہ عنھم اجمعین) پیدا ہوئے۔ حضرت خدیجہؓ نبوت کے دسویں سال اس فانی دنیا سے کوچ کر گئیں۔آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے انہیں لحد میں اتارا اور ان کے لئے دعا فرمائی۔