اُمت پر بُرائی کو روکنے کی ذمہ داری

ہم مسلمانوں کے سر پر ’’خیراُمت‘‘ کا تاج اس لئے رکھا گیا ہے کہ ہم کو فریضہ تبلیغ و اصلاح ادا کرنا ہے۔ اب اگر ہم یہ فریضہ ادا نہیں کرتے تو ہم اس تاج کے مستحق بھی نہیں ہوسکتے اور نہ یہ تاج ہمارے سر پر زیب دیتا ہے۔ یہ تاج فخر و غرور اور بڑائی و تکبر کے اظہار کے لئے نہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے: ’’اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی، جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں‘‘ (سورہ فصلت۔۳۳) اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ وعظ و نصیحت اور تبلیغ و اصلاح کے کام سے خود کو کوئی بڑی ہستی نہ سمجھے، بلکہ یہ کہے کہ میں تو عام مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں۔ خیر امت کا تاج سرپر رکھ کر فخر و تکبر نہ کرے، بلکہ ’’اِنَّنی من المسلمین‘‘ کہہ کر عجز و انکسار کا اظہار کرے۔ جس درخت پر پھل آتا ہے، اس کی ٹہنیاں تکبر سے سر نہیں اٹھاتیں، بلکہ عاجزی سے سر جھکا لیتی ہیں۔
یہاں ایک نکتہ اور ذہن میں رکھا جائے کہ ارشاد ربانی ہے: ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتؤمنون باللہ‘‘۔ یعنی ایمان باللہ تو سب سے مقدم چیز ہے، لیکن یہاں ایمان باللہ پر تبلیغ کو مقدم رکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان میں تو سابقہ امتیں بھی شریک ہیں، لیکن امت محمدیہ کو جو فوقیت حاصل ہے، وہ تبلیغ ہی کی وجہ سے حاصل ہے۔ یہی اس کا طرۂ امتیاز ہے کہ ختم نبوت کے بعد، کارن نبوت اس کے سپرد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ نکتہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

دعوت الی اللہ کے تفصیلی طریق کار کی وضاحت کرنا میرا مقصود نہیں ہے، لیکن بطور اصول ایک آیت ہمیشہ ذہن میں رکھیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت اور خوش اسلوبی سے نصیحت کرکے دعوت دو (اور اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو‘‘ (سورۃ النحل۔۱۲۵) جدال کے معنی لازماً لڑنے اور جھگڑنے کے ہی نہیں ہوتے، افہام و تفہیم کے لئے دلائل کے ساتھ بحث کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اچھی طرح یاد رہے کہ بحث سے مقصود افہام و تفہیم ہو، لذت نفس کے لئے اپنی برتری جتانا مقصود نہ ہو۔ صوفیۂ کرام بحث مباحثہ سے جو روکتے ہیں، اس سے مراد یہی مباحثہ ہے، جو نفس کی خاطر اپنی برتری جتانے کے لئے کیا جائے۔
ایک اور اصولی بات ذہن میں رکھیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے، اگر استطاعت ہو تو اس کو ہاتھ (یعنی بزور) بدل دے اور اگر یہ استطاعت نہ ہو تو زبان سے روک دے اور اگر یہ استطاعت بھی نہ ہو تو کم از کم دل ہی میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔ (مسلم و ترمذی وغیرہ)

بعض لوگوں نے اس حدیث شریف سے یہ سمجھا اور درست سمجھا کہ برائی کو بزور مٹادینا ایمان کا اعلی درجہ ہے، لیکن یہ بھول گئے کہ اسی حدیث میں اس کے لئے استطاعت کو شرط قرار دیا گیا ہے۔ بغیر استطاعت برائی کو بزور مٹانے کی کوشش کرنا، دین کی خدمت نہیں، دین سے عداوت ہے۔ اس حدیث کو صحیح طورپر صرف صوفیہ کرام نے سمجھا ہے اور اس صحیح فہم کی وجہ سے وہ تبلیغ و اصلاح کا وہ عظیم الشان کام کرگئے، جو تاریخ اسلام میں کسی اور سے ممکن نہ ہوسکا اور یوں بھی یہ بنیادی اصول پیش نظر رہنا چاہئے کہ ’’وسعت و استطاعت کے بغیر اللہ تعالی نے کسی کو مکلف کیا ہی نہیں‘‘۔

جہاں اصلاح و تبلیغ ضروری ہے، وہاں حکمت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر حکمت کے بغیر اصلاح و تبلیغ کی کوشش کی جائے تو بجائے فائدہ کے اُلٹا نقصان ہو سکتا ہے۔ لوگوں کو ’’اُدع الی سبیل ربک‘‘ تو یاد رہ گیا، مگر آیت کا اگلا حصہ بھول گئے۔ ’’حکمت‘‘ تو جانتے ہی نہیں کہ یہ کس چڑیا کا نام ہے۔ دعوت و نصیحت، نفسیات اور موقع و محل کو سمجھ کر کرنی چاہئے۔ یعنی روٹی توے پر اس وقت ڈالنا چاہئے جب وہ گرم ہو، ورنہ ٹھنڈے توے پر روٹی ڈالوگے تو نہ صرف یہ کہ وہ پکے گی نہیں، بلکہ آٹا بھی ضائع ہو جائے گا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملاً شکر گزار بننے کے لئے ہم کو حضورﷺ کے مشن کے لئے کام کرنا ہوگا، ورنہ ہم عملاً ناشکرے ہی سمجھے جائیں گے۔ جہاں ہم دنیا بھر کے غیر ضروری مشاغل کے لئے وقت نکال لیتے ہیں، وہاں ہم کو اس ضروری کام کے لئے بھی وقت نکالنا ہوگا۔ یہ دین کا کام ہے، یہ آخرت کی سرمایہ کاری ہے۔ ذرا سوچئے! اگر ہم یہ کام نہ کریں اور جب ہم حشر کے دن حضورﷺ کی خدمت میں شفاعت کے لئے حاضر ہوں اور اس وقت حضور ہم سے یہ پوچھیں کہ ’’تم نے میرے مشن کے لئے کیا کام کیا، جو میں نے تمہارے سپرد کیا تھا؟، اس کے لئے کتنا وقت دیا؟ اپنی کتنی توانائی صرف کی؟۔ تم ناپائیدار دنیا کے لئے تو بھاگ بھاگ کر اپنا خون پسینہ ایک کرتے رہے، میرے مشن کے لئے بھی کچھ پسینہ بہایا؟‘‘ تو بتائیے اس وقت ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟۔ اس کے لئے ہمیں وقت نکالنا چاہئے اور یہ کار نبوت انجام دینا چاہئے، منصب امامت پر ہم کو اسی کام کے لئے فائز کیا گیا ہے۔ اگر ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے لئے کام نہ کریں تو ہمارے لئے منصب امامت کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔

ایک اور بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ سلاسل طریقت جو پوری دنیا میں سیکڑوں کی تعداد میں ہیں، اسی کام کے لئے قائم ہوئیہیں۔ برصغیر میں تو صرف چار چھ ہی سلسلے آئے ہیں، سلسلوں کی یہ چھوٹی بڑی تمام نہریں دریائے صفہ سے نکلی ہیں۔ صفہ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خانقاہ تھی، جہاں افراد کو تبلیغ و اصلاح اور رشد و ہدایت کے لئے تیار کیا جاتا تھا، ان کو تربیت دی جاتی تھی، پھر ان تربیت یافتہ افراد کو تبلیغ و ارشاد کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ ان افراد کے قیام و طعام کا انتظام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔ آج دنیا میں آپ جو خانقاہی نظام دیکھ رہے ہیں، اس کی بنیاد صفہ سے ہی رکھی گئی ہے، یہ نظام اسی چشمہ سے فیضیاب ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں کچھ لوگوں نے اس کے مقاصد کو فراموش کردیا تو خانقاہی نظام بھی ایک رسم بن گیا اور اس کی روح فنا ہو گئی۔ لیکن اب بھی دنیا میں ہزاروں خانقاہیں ہیں، جو اپنے مقاصد کی تکمیل میں سرگرم عمل ہیں۔ صوریہ کرام ان ہی خانقاہوں میں افراد کو تربیت دے کر دور دراز علاقوں میں بھیجتے تھے۔ ان خانقاہوں کو آپ عصر جدید کی زبان میں اسلامک سنٹرز اور اسلامی مراکز بھی کہہ سکتے ہیں۔ (اقتباس)