اولیاء کرام محبوبانِ خدا ہیں

سیدہ رضوانہ فاطمہ
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’خبردار! تحقیق کہ اللہ کے دوستروں کو کوئی خوف نہیں اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے‘‘۔ اس ضمن میں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ والرضوان کا قول ہے کہ ’’ولی وہ ہے جو بے خوف ہو، کیونکہ خوف مستقبل میں پیش آنے والی اس حالت کو کہتے ہیں، جس سے دل پر تکلیف یا جسم پر کسی مصیبت کا ڈر ہو یا محبوب کے الگ ہو جانے کا خطرہ امڈ رہا ہو‘‘۔ ولی اپنے وقت کا پابند ہوتا ہے کہ اس کے لئے کوئی زمانہ آنے والا زمانہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی چیز سے خوف رکھے۔ اسی طرح انھیں کوئی غم بھی لاحق نہیں ہوتا، کیونکہ غم بھی وقت کی کدورت کو کہتے ہیں۔

دولت ایمان سے مشرف ہونے کے بعد اہل عزم و ہمت ترقی کے مختلف درجات طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس بلند مقام پر فائز ہو جاتے ہیں، جس کی وضاحت حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی: ’’اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ بندہ نفلی عبادات سے میرے قریب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں ہی اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘‘۔ (بخاری شریف)

اللہ سبحانہ و تعالی اپنے دوستوں کا حامی و ناصر ہے، اس نے اپنی ان پاک ہستیوں کو اپنی دوستی کے لئے مخصوص کرلیا ہے، ان کو اپنے افعال و قوت کا مظہر بنایا ہے اور ان کو مختلف قسم کی کرامات سے مخصوص کیا۔ اللہ تعالی برہان نبوی علیہ الصلوۃ والسلام کو آج تک باقی رکھے ہوئے ہے، اولیاء کرام کے ذریعہ ان برہان کا اظہار ہوتا رہتا ہے اور ان کو دنیا والوں کا حاکم فرمایا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اپنی طرف سے ہمارے لئے ولی بنا اور اپنی طرف سے ہمارے لئے مددگار بنا اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی و مددگار عطا فرما‘‘ (سورۃ النساء) جس سے یہ واضح ہوا کہ رب تباک و تعالی جس پر مہربان ہوتا ہے، اس کے لئے مہربان مقرر فرما دیتا ہے اور جس پر غضب ناک ہوتا ہے، اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیتا ہے، اسی لئے مددگار بنانے کی دعاء مانگنے کا حکم دیا۔

کرامت کا لغوی معنی ہے بزرگ، عزت وغیرہ۔ یہ وہ حیرت انگیز اور خرق عادت ہے، جو ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوکر صاحب کرامت کی بزرگی، بڑائی اور عزت کو ظاہر کرتا ہے، اس لئے اسے کرامت کہا جاتا ہے۔ کرامت اس خلاف عادت کام کو کہتے ہیں، جو کسی نیک شخص سے ظاہر ہو اور نبوت کے دعویٰ کے ساتھ ملا ہوا نہ ہو۔

حضرت فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث شریف درج فرماتے ہیں کہ ’’بے شک اولیاء اللہ مرتے نہیں، بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہوتے ہیں‘‘۔ (تفسیر کبیر)
حدیث قدسی میں ارشاد گرامی ہے کہ ’’جس نے میرے کسی ولی کو ایذا دی، میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں‘‘ یعنی ولیوں سے دشمنی رکھنے والے ان سے دشمنی نہیں رکھتے، درحقیقت وہ خدا کے دشمن ہیں، کیونکہ اولیاء کرام محبوبان خدا ہیں اور محبوبوں کا دشمن کبھی دوست نہیں ہوسکتا۔

حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو کرامات، مجاہدات اور تصرفات کے لحاظ سے اولیاء کرام کی جماعت میں جو خصوصی امتیاز حاصل ہے، وہ کسی اور ولی کو نہیں۔ تمام اولیاء کرام چند کرامات لے کر آئے، لیکن حضرت غوث اعظم سراپا کرامت ہیں۔ آپ کی بزرگی اور ولایت اس قدر مشہور اور مسلم الثبوت ہے کہ آپ کے ’’غوث اعظم‘‘ ہونے پر تمام امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتفاق ہے۔ علاوہ ازیں کسی ولی کی کرامتیں اس قدر تواتر کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچیں، جس قدر تواتر کے ساتھ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات منقول ہیں۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’آپ کی کرامات ایسی ہی لاتعداد ہیں، جیسے حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات‘‘۔

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے زور بیان اور سوز کلام کا یہ اثر تھا کہ فسق و فجور میں مبتلا ایک بگڑے ہوئے معاشرہ میں آپ کی دعوت حق نے لاکھوں بندگان خدا کی کایا پلٹ دی اور ہزاروں و لاکھوں گم کردہ منزل، منزل آشنا ہو گئے۔ آپ کی زندگی کا بنیادی پہلو کتاب و سنت کی پیروی، تعلق باللہ، توکل علی اللہ، مخلوق سے بے نیازی، یاد الہی، محبوبان بارگاہ حبیب پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات گرامی سے محبت و الفت اور آپﷺ کی ذات گرامی سے نسبت کی استواری تھا۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے کلام معجز بیان میں وہ تاثیر تھی کہ آپ آیات وعید کے معانی بیان فرماتے تو تمام لوگ لرز جاتے تھے۔ گریہ و زاری کا یہ عالم ہوتا تھا کہ اہل محفل پر بیہوشی طاری ہو جاتی تھی۔ اور جب آپ رحمت الہی کی تشریح و توضیع اور اس کے مطالب بیان فرماتے تو لوگوں کے دل غنچوں کی طرح کھل جاتے۔ اکثر حاضرین تو بادۂ ذوق و شوق سے اس طرح مست و بے خود ہو جاتے کہ بعد ختم محفل ان کو ہوش آتا تھا اور بعض تو محفل میں ہی جاں بحق ہو جاتے‘‘۔ (اخبارالاخیار)