مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
بچہ ابھی ماں کی آغوش میں رہنے کیلئے بے تاب رہتا ہے کہ اس معصوم جان کی اس فطری خواہش کا گلا گھونٹ کر مشنری اسکولس میں نگرانی کرنے والی اکثر حالات میں بے دین عورتوں کی آغوش میں پہنچا دیا جاتا ہے، پرتعیش زندگی کیلئے چونکہ ماں کو بھی بچہ کے باپ کیساتھ کسب معاش کی تگ و دو میں جٹے رہناہوتا ہے، اسلئے اس کی آغوش اب اپنے جگر کے ٹکڑے کیلئے وقف نہیں رہ سکتی، مغربی تہذیب کی چاہت اور ترقی پسند معاشرہ کی اندھی تقلید نے یہ دن دکھائے ہیں۔ مشنری اسکولس میں تعلیم حاصل کرنے والوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اسلامی اعلیٰ اخلاق و کردار کا نمونہ پیش کریں گے، ماںباپ، خاندان اور قوم و ملت کیلئے خیر کا سرمایہ بنیں گے ایسا ہی ہے جیسے کوئی کیکر کے بیج زمین میں بو کر اس کی شاخوں پر گلاب کے پھول کھلنے کی تمنا وآرزو کرے۔
نظام تعلیم میں اخلاقیات کی بڑی اہمیت ہے، دین و ایمان کے اور اسلامی اخلاق و کرادر کے تقاضے جس ماحول میں مجروح ہوتے ہوں اس ماحول سے تعلیم وتربیت پاکر نکلنے والی نسل سے خیرپسندانہ توقعات ایک پیاسے کے حق میں سراب کے مانند توہوسکتی ہے جو تشنگی نہیں بجھا سکتی۔
اس تناظر میں ماںباپ کا فرض ہے کہ مادّیت کے سیلاب میں بہہ کر اپنے نوخیز بچوں کو ماں کی گود سے محروم نہ کریں، ماں کی گود بچہ کے حق میں اوّلین مدرسہ ہے، ماں کی محبت، اس کی ممتا، اس کا پیار اور اس کا اپنے آپ کو جی جان سے اس پر نچھاور کرنا یہ وہ فطری جذبات ہیں جو بچہ کی نشونما میں بڑے مفید اور کارگر ثابت ہوتے ہیںاسلئے اس ماں کی محبت بھری چھاؤں سے اولاد کو ہرگز محروم نہ کیجئے۔ عیسائی مشنری اسکولس میں داخلہ کے بجائے کسی اچھے مسلم مینجمنٹ کے زیرانتظام مذہبی و اخلاقی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی تعلیم دینے والے اداروں کا انتخاب کیجئے، اسکول کے ذمہ داروں سے ہمیشہ رابطہ میں رہیئے اور اپنی اولاد کی تعلیمی ترقی پر کڑی نظر رکھیئے، اسکول کے علاوہ جو فارغ اوقات ہیں ان پر بھی گہری نظر رہے، ان فارغ اوقات کو اچھے استعمال میں لایئے، دینی واخلاقی تربیت کیلئے اپنی پاکیزہ زندگی کا نمونہ پیش کرنے کے ساتھ اسی نہج پر ان کی تربیت کی ذمہ داری کو محسوس کیجئے۔ بچوں کے دوست احباب پر بھی ماں باپ کی نظر رہنی چاہئے کہ وہ کیسے ہیں، صحبت کی بڑی اہمیت ہے، نیک اور صالح بچوں کی صحبت اختیار کرنے کی تلقین کی جائے اور اگر برے ساتھیوں کی ہمنشینی و ہمجلیسی محسوس ہو تو حکمت عملی کے ساتھ اس کے تدارک کی کوشش کیجئے، نمازوں کی پابندی، تلاوت قرآن کا اہتمام، ذکرواذکار پر مواظبت، بڑے بزرگوں کا احترام و تعظیم اور ان کی خدمت کا جذبہ، چھوٹوں سے شفقت و محبت جیسے اسلامی اقدار اُن کے ذہن نشین کروایئے، اپنے گھر کو اسلامی تمدن و تہذیب کا گہوارہ بنائے رکھیئے۔ قرآن پاک کا یہ حکم ہرآن پیش نظر رہنی چاہئے: ’’ائے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں، ان کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ اس حکم کو بجا لاتے ہیں‘‘(التحریم؍۶)۔
عصر حاضر کی جو نئی ایجادات ہیں، جیسے اسمارٹ موبائل فونس، فیس بک، واٹس ایپ، ٹی وی، وی سی آروغیرہ کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی، لیکن موجودہ تجربات و مشاہدات بتارہے ہیں کہ ان کے فوائد سے زیادہ نقصانات سے نوجوان نسل دوچار ہے، اسلئے اس جہت سے بھی بڑی فکر کی ضرورت ہے، معصوم ذہنوں کو اس کے نقصاندہ استعمالات سے بچانا گویا دہکتی ہوئی آگ سے ان کو بچانے کے برابر ہے، اس کے شیطانی اثرات نے انسانی معاشرہ پر ڈیرہ جمالیا ہے، کئی ایک خاندان اس کے مضر اثرات کی لپیٹ میں آگئے ہیں، جو خرابیاں ٹی وی کلچر کی وجہ عام ہوگئی ہیں اس نے اخلاقیات کا لبادہ تارتار کردیاہے۔ حالیہ واقعہ اس کا شاہد ہے کہ ایک نوجوان ’’نبیل‘‘ کی جان اس شیطانی کھیل کی وجہ ضائع ہوچکی ہے اور کئی ایک اخلاقی مفاسد و معائب نے نوجوان نسلوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیاہے۔ ماںباپ اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کریں اور اسلامی نقطہ نظر سے ایسی منصوبہ بندی کریں کہ مزید نقصان اٹھانے سے اپنے آپ کو بچایا جاسکے۔