اولاد کی تربیت میںماںباپ کا رول (قسط اول)

مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ

اس کائنات عالم میںیوں تو ہر شئے نادرروزگار، محیرالعقول، گرانقدر، قدرت خداوندی کا عظیم شاہکار ہے، لیکن ان سب میں انسان اللہ سبحانہ کی قدرت اور صناعی کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے، پھر انسانوں میں وہ انسان اعلیٰ اور ارفع ہے جو ایمان و معرفت کے نور سے سرشار ہے، پیدائش سے لیکر موت تک انسانی زندگی کے جو مراحل ہیںان میں اس کی نشونما و تربیت کے اعتبار سے بچپن، پھر نوجوانی کا زمانہ بڑا اہم ہے۔ اللہ سبحانہ نے نسل انسانی کی بقاء اور اس کے تحفظ کی غرض سے اولاد کی چاہت ہر ایک مرد و عورت کے دل میں رکھی ہے، اس کی وجہ اولاد کی تمنا و طلب ہر دل میں پنپتی ہے،اولاد سے آنکھوں کو ٹھنڈک، دلوں کو تسکین و راحت ملتی ہے۔ اولاد ایک انسان کی آرزوؤں اور تمناؤں کا ثمر ہوتی ہے، خاندان کے وجود کا انحصار اولاد پر ہے، اسلئے اولاد ہر ایک کو جی جان سے عزیز ہوتی ہے، اولاد کی چاہت ومحبت اللہ کے محبوب بندوں کو بھی رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملت ابراہیمی کے سرخیل حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام باوجود یہ کہ ضعیفی کی منزل میں قدم رکھ چکے تھے، جس میں اولاد کی امید سے انسان ہاتھ چھوڑ دیتا ہے لیکن ان کی دلی تمنا و آرزو کو قرآن مجید میں محفوظ کرکے اولاد کی چاہت و محبت سے انسانی رشتہ کی اہمیت کو اجاگر کیاگیاہے، ضعیفی کے منظر کو بارگاہ الٰہی میں پیش کرکے اسبابی نقطہ نظر سے اولاد سے ناامیدی کے سارے مراحل کا تذکرہ کرتے ہوئے قدرت خداوندی پر ایمان و ایقان کی کیفیات کیساتھ بارگاہ الٰہی میں اولاد کیلئے عاجزانہ معروضہ پیش کیا رب ھب لی من الصالحین۔ حضرت سیدنا زکریا علیہ السلام نے بھی جب بی بی مریم علیہا السلام کے ہاں بے موسم پھل دیکھے تو ان کے دل میں اولاد کی تمنا جاگ اٹھی، بارگاہ الٰہی میں دعا کی، ائے میرے رب! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما بیشک تو دعا کا سننے والاہے اور ائے پروردگارا! مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما( سورۂ انبیاء؍۸۹، سورہ ٔمریم؍۵۔۶)۔
اس تمنا کی غرض و غایت یہ تھی کہ ان کی اولاد ان کی اور آل یعقوب کی جانشین بنے تاکہ ان کی زندگی کا مشن پورا ہو یعنی خانوادہ یعقوب سے جو توحید کی امانت دوسر ے انسانوں کے سینہ تک پہنچی ہے اور جو روشنی توحید و معرفت کی عالم میں جگمگائی ہے وہ جاری و باقی رہ سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیکی اور صالحیت کرۂ ارض پر امن وامان کی ضامن ہے، اولاد اگر نیک اور صالح ہو تو اس میں ان کے اعزاز و اکرام کیساتھ ان کے والدین اور خاندان بلکہ ملک و قوم کے اعزاز و اکرام کا راز اس میں پوشیدہ ہے، آخرت کے انعام و اکرام کا تو اس مادی دنیا میں کوئی تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کیساتھ پیار و محبت کرنے اور شفقت کیساتھ پیش آنے اور ان کی عمدہ تعلیم و تربیت کرکے ان کو ایک اچھا انسان بنانے کی خصوصی ہدایات دی ہیں۔

اس تناظر میں ماںباپ پر اس کی بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جائز مادی وسائل و ذرائع اختیار کرکے اولاد کی کفالت کی جائے، ان کے رہنے سہنے، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، بیمار ہوں تو انکے علاج و معالجہ اور ان کی تیمارداری کا فریضہ نبھایا جائے، مادی ضروریات کی تکمیل سے ظاہر ہے یہ ذمہ داری پوری نہیں ہوجاتی بلکہ دین و مذہب سے ان کا رشتہ جوڑے رکھنے کی بھرپور کوشش بھی ماںباپ پر فرض ہے کہ وہ خود دین و ایمان پر قائم رہیں اس کے بغیر اپنی اولاد کی دینی نشونما آسان نہیں اسلئے ماںباپ پر خود فرض ہے کہ وہ احکام اسلام سے خوب روشناس ہوں اور جو فرائض و ذمہ داریاں اسلام نے ان پر عائد کی ہیں بشاشت قلبی کیساتھ ان کو پورا کریں۔ بچوں کی عمدہ تربیت کی فکر جن کو دامن گیر ہو ان کیلئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ایمانیات، اعتقادات، عبادات، معاشرت و اخلاق ہر پہلو سے اپنی فکر کریں اور زندگی کے سارے شعبوں کو اللہ کے احکام کے رنگ میں رنگ لیں، معصوم بچوں کیلئے ماں باپ کا یہ عملی پیغام نقش کا لحجر کے مانند اُن کے دلوں پر نقش ہوجائے گا، مزید تعلیم و تربیت سے ان کو ایک اچھا دیندار، متقی و پرہیزگار، خداترس انسان بنانے کی پے در پے مہم جاری رکھیں۔ اللہ کے محبوب پیغمبران کرام علیہم السلام نے بڑی پاکیزہ، مثالی، خداترسانہ زندگی گزاری ہے اور اپنی اولاد و نسل کو بھی دین و ایمان پر قائم رکھنے کی محنت و کوشش اور وصیت کی ہے، تفصیل کیلئے سورۂ بقرہ (۱۳۱ تا ۱۳۳) کا مطالعہ کریں۔