اولاد کی تربیت اور نوجوانوں سے خطاب

مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ                                ( ہفتم و آخری قسط)

مسلم دنیا میں ایسے نوجوان بھی ملتے ہیں جنہوں نے دنیا کو بہت کچھ دیا اور اپنا نام تاریخ کے زرین اوراق میں درج کروایا، ان میں ایک نام ’’ابوعبداللہ محمد ابن بطوطہ مراکشی‘‘ کا ہے جنہوں نے ۶۵؍سال کی زندگی پائی، ان کی زندگی اسلامی اخلاق واقدار کا نمونہ تھی، انسانیت کی بھلائی ان کا نصب العین تھا، دینی بصیرت و اخلاقی جرأت کے وہ پیکر تھے، صرف بائیس سال کی عمر میں انہوں نے تن تنہا حج کے ارادہ سے مراکش سے مکۃالمکرمہ کا سفر کیا، اس کے بعد ان کی زندگی تحقیق و جستجو میں بسر ہوئی، کئی ایک ممالک کا انہوں نے دورہ کیا، زندگی کا اکثر حصہ سیروسیاحت میں گزارا، سلطان محمد تغلق کی حکومت میں دس سال تک دہلی میں چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز رہنے کا انہوں نے شرف پایا،وہ بہت بڑے نامور سیاح اور جغرافیہ داں رہے ہیں، انہوںنے جو سفرنامہ املا کروایا تھاوہ تین ماہ میں مکمل ہواتھا اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع ہوچکا ہے۔
الغرض کئی ایک ایسے نوجوان تاریخ کی زینت بنے ہوئے ہیں جنہوں نے کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں، میرے ایک دوست محمدالعمری ہیں

جنہوں نے جوانی کے زمانہ میں سات زبانوں پر عبور حاصل کیا اور کئی ایک اسلامی علوم کے ماہرین کی تصانیف کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا، اس وقت وہ شکر کے عارضہ کی وجہ ایک پیر سے محروم اور بیمار ہیں، ان کیلئے دعا بھی کی جانی چاہئے اور ان کی زندگی سے سبق بھی لیاجانا چاہئے۔ ایک اور ہمارے دوست جلال الدین تھے باوجود یہ کہ وہ غریب خاندان میں پیدا ہوئے تھے، بچپن ہی میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، لیکن انہوں نے بڑی محنت و لگن سے تعلیم حاصل کی، حفظ قرآن کی دولت پائی، عربی زبان اور اسلامی علوم کے سرمایہ سے بھی اپنے سینہ کو وشن کیانیز انگریزی زبان میں کمال درجہ کی مہارت حاصل کی اور اس کی انتہائی سند پی ایچ ڈی کے مستحق بنے، انگریزی زبان میں بے انتہا مہارت کی وجہ لیبیا کی ایک عظیم یونیورسٹی میں انگیزی کے پروفیسر رہے، کوئی چالیس سال کی عمر میں ان کی وفات ہوگئی لیکن انہوں نے اس مختصر زندگی میں علمی کمال حاصل کرنے کیساتھ کئی ایک اسلامی علوم پر مبنی کتابوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، فلسفہ و کلام اور تصوف کی کتب جن کی اصطلاحات بڑی مشکل ہوتی ہیں لیکن انہوں نے اپنی محنت وجانفشانی سے اس مہم کو سرکیا، یہ تذکرہ اسلئے کیا گیا کہ نوجوان اس سے روشنی حاصل کریں اور اپنے آپ کو علم و فن میں باکمال بنائیں۔
اے نوجوانو! علامہ اقبال رحمہ اللہ نے تم سے خطاب کرکے کہا تھا :
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا ، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
علوم و فنون سے محرومی، اخلاق و کردار سے تہی دستی جب امت کے نوجوانوں کا نصیبہ بن گئی تو وہی علامہ اقبال رحمہ اللہ یوں گویا ہوتے ہیں ۔
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارا
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا