اولاد کی تربیت اور ماں باپ کا تغافل

اولاد اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے۔ ماں باپ کے نزدیک مال و دولت، عزت و شہرت، عہدہ و منصب سے زیادہ عزیز اولاد ہوتی ہے۔ نو ماہ تک ماں اس کے وزن کو اپنی کوکھ میں اٹھائے رکھتی ہے۔ ولادت تک کتنی مصیبتوں کو جھیلتی ہے، کس قدر تکالیف کا سامنا کرتی ہے، لیکن جب ایک نگاہ اپنے لخت جگر پر ڈالتی ہے تو ساری تکلیفوں کو آن واحد میں بھول جاتی ہے۔ باپ اس کی نشو و نما اور پرورش و پرداخت کے لئے جان توڑ محنت کرتا ہے، اس کے لئے ہر ممکنہ سہولت فراہم کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑتا، ہر وقت اس کے لئے ڈھال بنا رہتا ہے، اس کو اپنے زیر سایہ لے کر دنیا کے ہر رنج و غم سے محفوظ کردیتا ہے۔
اولاد کی محبت فطری امر ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بچوں کو گود میں اٹھا لیتے، بعض اوقات کندھے پر بٹھا لیتے، سواری پر ہوتے تو اپنے آگے یا پیچھے انھیں سوار کرلیتے، ان کی پیشانی چومتے اور ان کے لئے خیر و برکت کی دعاء کرتے۔ (بخاری۲:۳۴۴، باب۲۲)
ایک مرتبہ قبیلہ کے سردار اقرع بن حابس نے آپ کو بچوں سے پیار کرتے ہوئے دیکھا تو کہا ’’میرے دس بیٹے ہیں، مگر میں نے آج تک ان سے کبھی پیار نہیں کیا‘‘۔ آپ نے یہ سنا تو فرمایا ’’جو کسی پر رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا‘‘۔ (مسلم۴:۸۱۳)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوٹی صاحبزادی بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت تھی، جب کبھی آپ سفر پر روانہ ہوتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ سے ملاقات کرتے اور جب سفر سے واپس ہوتے تو سب سے پہلے ان کے گھر تشریف لے جاتے۔

ایک مرتبہ عین خطبہ جمعہ کے موقع پر حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما بچپن میں لڑکھڑاتے ہوئے مسجد نبوی میں پہنچے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جونہی ان کو ملاحظہ فرمایا، اپنے سلسلہ کلام کو منقطع کردیا۔ منبر سے نیچے تشریف لائے اور ان کو گود میں اٹھا لیا اور فرمایا ’’اللہ تعالی نے سچ کہا ہے یقیناً تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں‘‘۔ (سورۃ التغابن۔۵۱)
قرآن مجید میں مال اور اولاد دونوں کو ’’فتنہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فتنہ کے معنی امتحان اور آزمائش کے بھی آتے ہیں اور اس کا اطلاق مصیبت اور عذاب پر بھی ہوتا ہے۔ یہاں پر دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں۔ مال و دولت اور اولاد حقیقت میں خیر و نعمت ہیں اور جو شخص اس نعمت کی صحیح قدردانی کرتا ہے، اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی بہترین نگہداشت کرتا ہے، اس آزمائش میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے لئے پروردگار کا ارشاد ہے ’’وان اللہ عندہ اجر عظیم‘‘ ایسے شخص کے لئے اللہ تعالی کے پاس اجر عظیم ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالی کی ان نعمتوں کی قدردانی نہیں کرتا تو یہی نعمت اس کے لئے وبال جان بن جاتی ہے اور دنیا و آخرت اس کے لئے پریشانی کا باعث ہو جاتی ہے۔

آج مسلم معاشرہ میں روز بروز خرابیاں بڑھتی جا رہی ہیں، ہر گوشہ و جہت سے برائیاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ نوجوانوں نسل تباہی کے دہانے پر ہے، اخلاقیات سے کوسوں دور ہے، بے حیائی کے سیلاب نے مسلم معاشرہ کو بھی اپنی زد میں لے لیا ہے۔ تعلیم کا معیار تو بڑھ رہا ہے، لیکن اخلاق و کردار کا معیار اور دینی رجحان روز بروز پست ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کے انہماک میں اضافہ ہو رہا ہے اور آخرت سے بے اعتنائی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے اہم اسباب میں ماں باپ کا اپنی گراں مایہ ذمہ داریوں سے جی چرانا ہے اور اولاد کی بروقت صحیح تربیت و کردار سازی کا فقدان ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد کی ظاہری و جسمانی نشو و نما پر کامل توجہ دے رہے ہیں اور باطنی و اخروی صحت کے لئے چنداں فکر مند نہیں۔ عارضی دنیا میں خوشحالی کے لئے جتن کر رہے ہیں، لیکن دائمی و ابدی راحت و آرام سے بے فکر ہیں۔ ماں باپ کو اپنی اولاد کی ترقی، معاشی استحکام، روزگار کی ضمانت، اعلی رہائش، اونچی سواری کی فکر ہے، لیکن ان کو اپنی قبر کی فکر نہیں ہے، آخرت کا خیال نہیں ہے، حساب و کتاب کی پرواہ نہیں ہے، پل صراط سے گزرنے کا خوف نہیں ہے، جنت کا حقدار بنانے کی خواہش نہیں ہے۔

دین اسلام صرف دنیا کا مذہب نہیں اور نہ ہی وہ صرف آخرت کا دین ہے، بلکہ وہ دین اور دنیا دونوں میں رہنمائی و نجات اور کامرانی و خوشحالی عطا کرنے والا واحد مذہب ہے۔ حقیقی کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، دنیا عارضی ہے اور اس کی کامیابی بھی عارضی ہے۔ دائمی و ابدی راحتوں کے مقابل میں ماں باپ کا عارضی اور موقتی راحتوں پر اکتفاء کرنا اور اولاد کی آخرت سے غافل ہو جانا، مسلم معاشرہ کا افسوسناک پہلو ہے۔
اولاد، ماں باپ کے پاس امانت ہے، ہر اعتبار سے ان کی حفاظت ماں باپ کا فریضہ ہے۔ جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کی صحت اور ظاہری نشو و نما کی فکر کرتے ہیں، اسی طرح ان کو ذہانت میں فائق بنانا، بہترین اخلاق و کردار کا حامل بنانا، اسلامی تربیت کرنا، دینی مزاج پیدا کرنا، موت و آخرت کا خوف بٹھانا، جوابدہی کا تصور ان کے قلب و دماغ میں راسخ کرنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت اسلامیہ کی محبت پیدا کرنا، قرآن و حدیث سے وابستہ کرنا، ان کا اہم فریضہ ہے۔ اگر ماں باپ ان مقاصد کی تکمیل میں ناکام ہو جاتے ہیں اور اپنی اولاد کی صحیح تربیت نہیں کرپاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کی اولاد اللہ اور اس کے رسول اور آخرت سے غافل رہے گی، بداخلاقیوں اور بے حیائیوں میں گرفتار ہو جائے گی، تو کیا یہ اولاد کو قتل کرنے کے مترادف نہیں ہے؟۔ ماں باپ کے پاس اولاد باغبان کے ہاتھ میں پودے کی مانند ہے۔ جب باغبان پودے کو سازگار و ہموار زمین کے حوالے کرتا ہے اور مسلسل اس کی نگہداشت کرتا ہے تو بہت جلد وہ پودا پھولنے پھلنے لگتا ہے۔ وہ تر و تازہ رہتا ہے اور ایک دن اس کی جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں اور وہ تن آور درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور مختلف نوعیت سے مخلوق کثیر کے لئے نفع رسانی کا سبب بن جاتا ہے۔ اور باغبان جب اس کی صحیح نگہداشت نہیں کرپاتا تو نہ صرف اس کی نشو و نما رک جاتی ہے، بلکہ آثار حیات سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالی نے ماں باپ کو ان کی اور اولاد کی حقیقی کامیابی کی طرف واضح طورپر رہنمائی فرمائی ہے۔ ارشاد فرمایا ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ‘‘۔ دوزخ سے نجات پانا اور جنت کا حقدار ہونا ہی حقیقی کامیابی ہے۔ ’’فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز‘‘۔
اس کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے کامیاب زندگی کا طریقہ بھی بتا دیا ہے۔ ارشاد فرمایا ’’تم اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دو اور اس پر تم بھی کاربند رہو۔ ہم تم سے رزق کے بارے میں سوال نہیں کریں گے، کیونکہ ہم ہی تم کو رزق دیتے ہیں۔ اور یاد رکھو کہ اچھا انجام صرف اور صرف تقویٰ و پرہیزگاری کی بنیاد پر ہے‘‘۔ (سورۂ طہ۔۲۳۱)
ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کے ساتھ ایک سچا مسلمان بنانے پر بھی توجہ دیں۔ بچپن ہی سے اس کے دل و دماغ میں اسلامی احکامات کی محبت پیوست ہو جائے، وہ فرائض و واجبات کے ساتھ اسلامی آداب و اخلاق کا حامل ہو۔ حلال روزی کے ساتھ پنجوقتہ نماز کا پابند ہو۔ پروفیشنل کورسیس کے ساتھ قرآن و حدیث اور سیرت کا مطالعہ کرنے والا ہو۔