اولاد ، عاق کی وجہ سے محروم الارث نہیں ہوگی

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنے دونوں فرزندان کو عاق و جائیداد سے بیدخلی کا اعلان اخبار کے ذریعہ کروادیا۔
ایسی صورت میں شرعاً اس عاق کا کیا حکم ہے  ؟
جواب :  شرعا ًوالد کا اپنی اولاد کو عاق کردینے کی وجہ وہ محروم الارث نہیں ہوتی، بلکہ والد کے انتقال کے وقت موجود ورثاء میں وہ حصہ پائیں گے۔ کیونکہ شرعا ایک دفعہ بیٹا ثابت ہونے کے بعد اس کی نفی نہیں ہوسکتی۔ درمختار بر حاشیہ ردا لمحتار جلد ۴ ص ۴۹۶ میں ہے :  لو قال لصبی ھذا الولدمنی ثم قال لیس منی لا یصح نفیہ لأنہ بعد الاقرار بہ لا ینتفی بالنفی فلا حاجۃالی الاقرار بہ ثانیا ۔ عاق کا مطلب نافرمانی و عدم اطاعت گزاری ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی ہے‘‘۔ لہذا اولاد کو چاہئے کہ والد کے ساتھ ہمیشہ حُسن سلوک سے پیش آئے۔
طائفہ خاندان کی لڑکی سے عقد
سوال : کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میںکہ مسماۃ ہندہ بالغہ خاندان طوائف سے ہے اور اس کاساراخاندان یہی پیشہ اختیار کیاہواہے مگرمسماۃمذکوراس پیشہ سے ہٹ کرگوشہ نشین ہے اورپنجوقتہ نماز اداکرتی ہے اس کے عملیات زندگی قابل ستائش ہیں۔ ایک شخص مسمی زید اس لڑکی سے عقدکرناچاہتاہے لڑکی اورلڑکی کے اہل خاندان اس سے متفق ہیں مگرزیدکے چنداصحا ب خاص اوررشتہ داروںکویہ عذرہے کہ لڑکی شریف گھرانے کی نہیںہے ایسے کمترگھرانے کی لڑکی سے عقدنہیںکرناچاہئے بلکہ ایسی صحبت سے کوسوںدوررہناچاہئے چناچہ شرع شریف بھی ایسے کمترگھرانے کی لڑکیوںکے ساتھ شریف گھرانے کے لڑکوںسے عقدکی ممانعت فرمائی ہے۔ایسی صورت میںشرعاکیاحکم ہے  ؟
جواب : انسان کی شرافت اللہ تعالی کی اطاعت وپرہیزگاری سے ہے نسب سے نہیں۔ سورہ ٔحجرات میںہے :  یٰایھاالناس اناخلقنٰـکم من ذکروانثی وجعلنٰـکم شعوباوقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداﷲ اتقٰـکم ان اﷲ علیم خبیر۔نیزشریعت میںکفائت لڑکے والوںکی دیکھی جاتی ہے لڑکی کے خاندان کی نہیں۔ یعنی عاقد عاقدہ کے خاندان سے اعلی ہوناچاہئے  الکفاء ۃ معتبرۃ فی الرجال للنساء للزوم النکاح کذافی محیط السرخسی ولاتعتبرفی جانب النساء للرجال کذافی البدائع فاذاتزوجت المرأۃ رجلاخیرامنھافلیس للولی أن یفرق بینھما فان الولی لایتعیربأن یکون تحت الرجل من لایکافؤہ کذافی شرح المبسوط للامام السرخسی۔
صورت مسئول عنہا میںہندہ جب گناہ کی زندگی سے پرہیزکی ہوئی ہے توایک شریف آدمی سے اس کا عقدایک مستحسن اقدام ہوگا۔لہذازیدکاعقداس لڑکی سے کرنے میںشرعاکوئی قباحت نہیں۔
وکیل کے ذریعہ تین طلاق دینا
سوال : کیافرماتے ہیںعلماء دین اس مسئلہ میںکہ زیدنے اپنی زوجہ ہندہ کوبذریعہ وکیل تین طلاق دیدیا۔ ایسی صورت میںہندہ پرتین طلاقیں واقع ہوئیں یانہیں  ؟
جواب :  بشرطِ صحتِ سوال صورت مسئول عنہامیںزیدنے جسوقت اپنی زوجہ ہندہ کوتین مرتبہ طلاق دیااسی وقت ہندہ پرتین طلاقیںواقع ہوکرشوہرزید سے تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا۔اب وہ دونوںبغیرحلالہ آپس میں دوبارہ عقدبھی نہیںکرسکتے۔عالمگیری جلداول کتاب الطلاق ص ۳۴۸میں ہے وأماحکمہ فوقوع الفرقۃ…وزوال المناکحۃ متی ثم ثلاثاکذافی الحرۃ وثنتین فی الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحاویدخل بھاثم یطلقھا أویموت عنھا۔
فقط واﷲ اعلم