اوقافی جائیدادوں کے مقدمات کی موثر پیروی کیلئے وقف ماہرین سے خدمات کے حصول کا فیصلہ

وکلاء کی عدم دلچسپی سے مقدمات کی یکسوئی میں تاخیر پر فکر مند ، صدر نشین وقف بورڈ الحاج محمد سلیم کا بیان
حیدرآباد۔/2مارچ، ( سیاست نیوز) محکمہ اقلیتی بہبود عدالتوں میں اوقافی جائیدادوں سے متعلق مقدمات کی موثر پیروی اور وقف بورڈ کے حق میں بہتر نمائندگی کیلئے اسٹینڈنگ کونسلس کے طور پر وقف اُمور پر مہارت رکھنے والے افراد کو مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ وقف بورڈ کے اسٹینڈنگ کونسلس، وقف ٹریبونل اور ہائی کورٹ میں موجود ہیں لیکن مقدمات میں تیزی اور ان میں کامیابی کا رجحان حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ حالیہ عرصہ میں کئی اسٹینڈنگ کونسلس کو تبدیل کردیا گیا اور ان کی جگہ نئے وکلاء کو وقف مقدمات کی ذمہ داری دی گئی۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اوقافی جائیدادوں سے متعلق مقدمات میں وقف بورڈ کی جانب سے موثر پیروی نہیں کی جاتی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں وکلاء کی عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ وقف بورڈ کے عملے کی جانب سے درکار مواد کی فراہمی میں تساہل و تاخیر ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کیلئے صدرنشین وقف بورڈ جناب محمد سلیم نے مختلف عدالتوں میں زیر دوان مقدمات پر جائزہ اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وقف بورڈ کے عہدیداروں کے علاوہ اسٹینڈنگ کونسلس کے ساتھ اجلاس میں مقدمات کی پیش رفت اور فیصلوں میں تاخیر کا جائزہ لیا جائے گا۔ بعض مقدمات تو ایسے ہیں جن میں وقف بورڈ کی جانب سے مکمل دستاویزات کے باوجود بھی فیصلہ مخالف پارٹی کے حق میں آیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اسٹینڈنگ کونسلس نے مقدمہ کی پیروی کے سلسلہ میں دلچسپی نہیں دکھائی یا پھر سماعت کے وقت وہ غیر حاضر رہے۔ ان حالات سے نمٹنے کیلئے سابق میں اسپیشل آفیسرس کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے شیخ محمد اقبال اور جلال الدین اکبر نے لیگل ڈپارٹمنٹ کو پابند کیا تھا کہ وہ حیدرآباد، اضلاع سے لیکر سپریم کورٹ تک زیر دوران مقدمات کے سلسلہ میں روزانہ کی بنیاد پر اسٹیٹس رپورٹ پیش کی جائے تاکہ اس بات کا پتہ چلے کہ کتنے مقدمات میں وقف بورڈ نے جوابی حلف نامہ داخل کیا اور تاخیر سے داخلہ کی کیا وجوہات رہیں۔ روزانہ کی اساس پر مقدمات کے موقف کا جائزہ لینے سے اسٹینڈنگ کونسلس میں جوابدہی کا احساس پیدا ہورہا تھا۔ تلنگانہ ریاست کے قیام کے بعد مختصر عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہا بعد میں یہ روایت ختم ہوگئی۔ بتایا جاتا ہے کہ بورڈ کی جانب سے اسٹینڈنگ کونسلس کو دی جانے والی فیس بھی انتہائی کم ہے جس کے باعث وہ مقدمات میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ایک مقدمہ کیلئے فی الوقت صرف 4 ہزار روپئے ادا کئے جاتے ہیں جبکہ وکیل کو کروڑہا روپئے کی جائیداد کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ اس قدر کم اور معمولی فیس میں کوئی بھی وکیل کیونکر بورڈ کے حق میں اپنی توانائیاں صرف کرے گا۔ صرف ایسے وکلاء جو فیس کے بجائے جائیدادوں کے تحفظ کا جذبہ رکھتے ہوں وہی کوئی کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔ وقف بورڈ میں ان دنوں ایک اسٹینڈنگ کونسل کی برقراری کا مسئلہ تنازعہ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ دو ماہ قبل ایک خاتون وکیل صوفیہ بیگم کو اسٹینڈنگ کونسل مقرر کیا گیا، وہ ایک پولیس عہدیدار کی شریک حیات ہیں۔ انہیں حیدرآباد اور رنگاریڈی کے تمام مقدمات کی ذمہ داری دی گئی جو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ گذشتہ دنوں حکومت نے انہیں وقف بورڈ کا رکن نامزد کردیا ہے۔ بورڈ کے رکن نامزد ہونے کے بعد بھی انہیں اسٹینڈنگ کونسل کے طور پر برقرار رکھا گیا جو بتایا جاتا ہے کہ قواعد کے برخلاف ہے۔ کسی بھی سرکاری ادارہ میں شامل فرد اسی ادارہ کا اسٹینڈنگ کونسل برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس سلسلہ میں جب سکریٹری اقلیتی بہبود کی توجہ مبذول کرائی گئی تو بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے مذکورہ اسٹینڈنگ کونسل کو بدستور خدمات جاری رکھنے کی صلاح دی ہے۔ یہ معاملہ دیگر اسٹینڈنگ کونسلس میں بے چینی کا باعث بن چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہائی کورٹ کے کئی فیصلے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کسی بھی سرکاری ادارہ میں شاملفرد اسی ادارہ کا اسٹینڈنگ کونسل نہیں رہ سکتا۔یہ پہلا موقع ہے جب وقف بورڈ نے نہ صرف خاتون کو اسٹینڈنگ کونسل بنایا تھا بلکہ بورڈ میں بھی خاتون کو شامل کیا گیا۔ بورڈ میں ان کی شمولیت وقف ایکٹ کے عین مطابق ہے۔