بورڈ کے ملازمین کے تحت موجود جائیدادوں کے تحفظ کی مہم ، سی ای او کی نوٹس
حیدرآباد۔20 جنوری (سیاست نیوز) اوقافی جائیدادوں کے قابضین کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ حکومت نے بورڈ کے ملازمین کے تحت موجود جائیدادوں کے تحفظ کی کارروائی شروع کی ہے۔ وقف بورڈ کے مکانات میں مقیم دو سابق عہدیداروں کو لیز کی مدت ختم ہونے پر تخلیہ کی نوٹس دی گئی ہے۔ سکریٹری اقلیتی بہبود و عہدیدار مجاز وقف بورڈ سید عمر جلیل کے احکامات پر چیف ایگزیکٹیو آفیسر نے دو سابق عہدیداروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مکانات کے تخلیہ کے لیے 15 دن کی مہلت دی ہے۔ مذکورہ دونوں سابق عہدیداروں کو رزاق پورہ اور مغل پورہ میں مکانات الاٹ کئے گئے تھے۔ مکانات کا یہ الاٹمنٹ وقف قواعد کے برخلاف کیے جانے پر یہ نوٹس جاری کی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بورڈ کے سابق عہدیداران میں ایک ریٹائرڈ سی ای او ہیں جبکہ دوسرے اسسٹنٹ سکریٹری کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ دونوں سابق عہدیدار ابھی بھی بورڈ میں او ایس ڈی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہیں جاری کردہ نوٹس کے مطابق مکانات کی لیز وقف قواعد کے برخلاف کی گئی۔ ریٹائرڈ اسسٹنٹ سکریٹری کو رزاق پورہ میں قدرت اللہ وقف کے تحت موجودہ مکان الاٹ کیا گیا تھا۔ جبکہ سابق سی ای او کو مغل پورہ میں نادھرشاہ وقف کے تحت موجودہ مکان لیز دیا گیا تھا۔ شہر کے ان دونوں مرکزی مقامات پر واقع وقف جائیدادوں کو دونوں عہدیداروں نے اپنے خرچ سے تعمیر بھی کیا ہے تاہم وقف بورڈ کو صرف معمولی کرایہ ادا کیا جارہا ہے۔ برسوں سے ان مکانات کا معمولی کرایہ ادا کرنے کے معاملہ پر کارروائی کرتے ہوئے وقف بورڈ نے جائیدادیں اپنی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مکانات کا کرایہ ماہانہ 800 تا 1200 روپئے ادا کیا جارہا ہے جبکہ ان علاقوں میں مارکٹ قیمت تقریباً 10 ہزار ہے۔ وقف بورڈ پر مختلف گوشوں سے اعتراضات کیئے جارہے تھے کہ دوسرے کرایہ داروں کے ساتھ تو بورڈ سختی کا معاملہ کرتا ہے اور کرایہ ادا نہ کرنے کی صورت میں پولیس میں مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور تخلیہ کے لیے نوٹس دی جاتی ہے لیکن اپنے ملازمین کے ساتھ یہ نرمی کیوں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ دو سابق عہدیدار خود بھی اوقافی جائیدادوں کے کرایہ میں اضافہ کے لیے اہم رول ادا کرچکے ہیں۔ مکانات کے الاٹمنٹ کے سلسلہ میں قواعد کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ایک دلچسپ انکشاف یہ ہوا کہ ایک سابق عہدیدار نے اپنے عہدے پر رہ کر خود اپنے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس معاہدے پر دونوں دستخط انہیں کے ہیں جو کہ غیر قانونی ہے۔ بورڈ کی جانب سے اندرون 15 یوم مکانات کے تخلیہ اور بصورت دیگر سخت کارروائی کی نوٹس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ دونوں سابق عہدیداروں نے درخواست پیش کی ہے کہ وہ اپنے مکانات کا کرایہ دوگنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کرایہ کو دوگنا کرنے کی صورت میں وقف بورڈ کو ایک مکان سے ماہانہ صرف 1700 روپئے اور دوسرے مکان سے صرف 2400 روپئے حاصل ہوں گے جوکہ انتہائی معمولی رقم ہے۔ وقف بورڈ کے عہدیدار مجاز نے کہا کہ اس قدر معمولی کرایے اور غیرقانونی طریقہ کار سے مکانات کو لیز پر حاصل کرنا افسوسناک ہے۔ سکریٹری اقلیتی بہبود نے مسجد یکخانہ شیخ پیٹ کے تحت 1999ء میں بعض ملازمین کو الاٹ کردہ اراضیات حاصل کرنے کی کارروائی بھی شروع کی ہے۔ انہوں نے وقف بورڈ کو ہدایت دی کہ وہ اراضیات کے حصول کے علاوہ مذکورہ ملازمین کے خلاف کارروائی کرے۔ اس معاملہ میں ڈپٹی چیف منسٹر نے مداخلت کرتے ہوئے کارروائی کو روک دیا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور صیانت سے متعلق ادارے کے عہدیدار و ملازمین خود قواعد کی خلاف ورزی کی مرتکب ہیں اور معمولی کرایہ پر غیر قانونی طریقہ سے مرکزی مقامات کی جائیدادیں اپنے نام کرلی ہیں۔ وقف بورڈ کے ذرائع نے بتایا کہ مسجد یکخانہ شیخ پیٹ میں اراضیات کا الاٹمنٹ بورڈ کی منظوری کے بغیر کیا گیا تھا۔