اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے خصوصی کمیشن کی سفارش

اقلیتی بہبود کا بجٹ ناکافی، خرچ کی صورتحال مایوس کن،سدھیر کمیشن آف انکوائری کی رپورٹ

حیدرآباد ۔ یکم   نومبر  (سیاست نیوز) سدھیر کمیشن آف انکوائری نے تلنگانہ میں اقلیتیوں کی پسماندگی اور آبادی کے اعتبار سے اقلیتی بہبود بجٹ کو ناکافی قرار دیا ہے۔ کمیشن نے حکومت کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں بجٹ کی اجرائی اور خرچ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ کمیشن نے اس صورتحال کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے بجٹ میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اس کے مناسب خرچ کو یقینی بنانے کی سفارش کی ہے۔ تلنگانہ میں اقلیتوں کی آبادی 12.68 فیصد ہے ۔ اس اعتبار سے ان کیلئے مختص کردہ بجٹ انتہائی ناکافی ہے۔ کمیشن نے اس سلسلہ میں ایس سی ، ایس ٹی اور بی سی طبقات کو مختص کئے جانے والے بجٹ کا تقابل کرتے ہوئے مسلمانوں کیلئے بھی علحدہ سب پلان کی تجویز پیش کی ہے۔ سدھیر کمیشن نے تعلیم ، ٹریننگ ایمپلائیمنٹ اور سرکاری ملازمتوں جیسے اہم شعبوں میں مسلمانوں کو نظر انداز کئے جانے کا حوالہ دیا۔ اس کے علاوہ اردو زبان کے تحفظ اور ترویج کیلئے بھی اقدامات کرنے کی سفارش کی ہے۔ سدھیر کمیشن نے ہر اقلیتی ادارے اور ان میں جاری اسکیمات کا جائزہ لیا ۔ کمیشن کا یہ احساس ہے کہ حکومت نے اقلیتی بہبود کیلئے اسکیمات تو شروع کی ہے لیکن عمل آوری کی رفتار انتہائی سست ہے۔ کمیشن نے اردو اکیڈیمی کے تحت چلنے والے 43 کمپیوٹر سنٹرس اور لائبریریز کی کارکردگی کو غیر اطمینان بخش قرار دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان مراکز کی  ذمہ داری اقلیتی فینانس کارپوریشن کو دی گئی ہے تاکہ ان کمپیوٹر سنٹرس کو مختلف کورسس کے ٹریننگ سنٹرس میں تبدیل کیا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے 5000 مساجد کے ائمہ اور مؤذنین کو ماہانہ ایک ہزار روپئے اعزازیہ مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس اسکیم پر عمل آوری حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ اسکیم سے استفادہ کیلئے کم درخواستیں وصول ہوئیں اور موجودہ درخواست گزاروں کو اعزازیہ کی رقم جاری نہیں کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مسلمانوں میں غربت کے خاتمہ اور معاشی طور پر خود مکتفی بنانے کیلئے جو اسکیمات موجود ہیں، ان پر مناسب عمل آوری نہیں کی گئی ہے ، جس کے باعث رقومات کا بڑا حصہ سرکاری خزانہ میں واپس ہورہا ہے۔ کمیشن نے بتایا کہ 2014-15 ء میں اقلیتی بہبود کا بجٹ 1030 کروڑ تھا لیکن صرف 453 کروڑ جاری کئے گئے۔ اس طرح صرف 26 فیصد بجٹ ہی خرچ ہوا اور باقی رقم سرکاری خزانہ میں واپس ہوگئی۔ کمیشن نے تجویز پیش کی کہ اقلیتوں کی ترقی کیلئے صرف اقلیتی بہبود کی اسکیمات پر انحصار کے بجائے دیگر محکمہ جات کی اسکیمات سے اقلیتوں کو جوڑنا چاہئے ۔ کمیشن نے کہا کہ مسلمانوں میں زیادہ تر غریب چھوٹے کاروبار کے ذریعہ روز مرہ کی آمدنی حاصل کرتے ہیں، ایسے خاندانوں کو خود مکتفی بنانے کیلئے بینکوں سے قرض جاری کئے جائیں۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کمیشن نے سلیکشن کمیٹیوں میں ایک مسلم نمائندہ کی شمولیت کی تجویز پیش کی۔ سدھیر کمیشن نے مسلم خواتین کی ترقی کیلئے اسکیمات شروع کرنے ، دیہی علاقوں میں بے زمین اقلیتی افراد کو اراضی کی فراہمی ، شہر اور اضلاع میں غریب خاندانوں کو آٹو رکشا کی فراہمی ، اقلیتی اقامتی اسکولس میں داخلوں میں اضافہ پر توجہ ، ہر محکمہ میں اردو افسر ، ٹرانسلیٹرس اور کمپیوٹر آپریٹرس کے تقرر کی سفارش کی ہے۔ سدھیر کمیشن نے اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور ان کی دیکھ بھال کیلئے خصوصی کمیشن قائم کرنے کی ضرورت ظاہر کی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ کمیشن کو جو نکات دیئے گئے تھے ، ان میں وقف کا موضوع شامل نہیں ہے۔ تاہم مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر خصوصی کمیشن کے قیام کی سفارش کی جارہی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ شہری علاقوں کے مسلمان گنجان علاقوں میں بستے ہیں، انہیں قبرستانوں کیلئے جگہ حاصل کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ حکومت سے سفارش کی گئی کہ رہائشی علاقوں سے تین کیلو میٹرس کے فاصلہ پر قبرستان کیلئے اراضی فراہم کی جائے۔ سدھیر کمیشن نے حکومت کے 37 اہم محکمہ جات میں مسلمانوں کی نمائندگی اور خاص طور پر گزیٹیڈ عہدہ پر کم نمائندگی کی رپورٹ میں نشاندہی کی ہے۔