خانگی شعبہ کو 30 سالہ لیز کی تجویز نامنظور ، اسلامک ڈیولپمنٹ بینک نے بھی تعاون کا پیشکش کیا
حیدرآباد۔/4ڈسمبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ میں اوقافی جائیدادوں کی ترقی اور اس کی آمدنی اقلیتوں کی بھلائی پر خرچ کرنے کیلئے حکومت اسلامک ڈیولپمنٹ بینک اور مرکزی حکومت سے اشتراک کی خواہاں ہے۔ اس سلسلہ میں ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی عنقریب نئی دہلی کا دورہ کریں گے جہاں مرکزی وزارت اقلیتی بہبود اور قومی اقلیتی ترقیاتی کارپوریشن سے مذاکرات کئے جائیں گے۔ اسلامک ڈیولپمنٹ بینک نے تلنگانہ حکومت کو تجویز پیش کی تھی کہ وہ اوقافی جائیدادوں کی ترقی کے سلسلہ میں امداد فراہم کرنے کیلئے تیار ہے۔ اسی طرح قومی اقلیتی مالیاتی و ترقیاتی کارپوریشن کے تحت اوقافی جائیدادوں کی ترقی میں تعاون اور قرض کی اجرائی سے متعلق اسکیم موجود ہے۔ تلنگانہ حکومت ان دونوں اداروں کے تعاون سے اوقافی جائیدادوں کی ترقی کا منصوبہ رکھتی ہے۔ دو ماہ قبل وقف بورڈ کی جانب سے حکومت کو تجویز پیش کی گئی تھی کہ شہر اور رنگاریڈی میں موجود پانچ اوقافی اراضیات کی ترقی کیلئے خانگی شعبہ سے معاہدہ کی اجازت دی جائے۔ حکومت کو 5 اراضیات کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں 30سال کی لیز پر خانگی اداروں کو حوالہ کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی جسے حکومت نے مسترد کردیا۔ حکومت اوقافی جائیدادوں کی ترقی کے سلسلہ میں خانگی اداروں کی شمولیت کے حق میں نہیں ہے کیونکہ 30سال کی لیز کی صورت میں بعد میں وقف بورڈ کو کمرشیل کامپلکس کا کنٹرول حاصل کرنے میں دشواری ہوسکتی ہے۔ پہلے ہی سینکڑوں کی تعداد میں ایسی اوقافی جائیدادیں ہیں جہاں کرایہ دار قابض ہیں اور وقف بورڈ ان کے تخلیہ کے سلسلہ میں کئی برسوں سے عدالتی کشاکش کا شکار ہے۔ حکومت 30سال کی لیز پر خانگی اداروں کو قیمتی اراضیات حوالہ کرنے کے حق میں نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف ایکزیکیٹو آفیسر وقف بورڈ کی جانب سے حکومت کو روانہ کردہ اس تجویز کی سکریٹری اقلیتی بہبود نے مخالفت کی اور اسے وقف بورڈ کے مفاد کے برخلاف قرار دیا۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے ذرائع نے بتایا کہ وقف ایکٹ 2013 میں حالیہ کی گئی ترمیم کے مطابق اگرچہ تجارتی، تعلیمی اور دیگر سرگرمیوں کیلئے لیز کی میعاد 30سال کرنے کی سفارش کی گئی ہے تاہم اس پر عمل آوری کی صورت میں وقف بورڈ کیلئے کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 30سال کی لیز کی صورت میں کوئی بھی لیز ہولڈر بعد میں لیز میں توسیع کا مطالبہ کرے گا اور وہ کامپلکس کو وقف بورڈ کے حوالے کرنے تیار نہیں ہوگا۔ ان حالات میں اوقافی جائیدادوں کا تحفظ مزید دشوار کن ہوسکتا ہے۔ تیس سالہ لیز کی آڑ میں اہم اوقافی جائیدادیں عدالتی کشاکش کا شکار ہوجائیں گی۔اگرچہ کئی خانگی اداروں نے اوقافی جائیدادوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں ترقی دینے کی تجویز پیش کی ہے لیکن حکومت خانگی اداروں کی شمولیت کے حق میں نہیں۔بتایا جاتا ہے کہ قومی اقلیتی ترقیاتی کارپوریشن نے اوقافی اداروں کی ترقی کیلئے قرض کی فراہمی اسکیم تیار کی ہے۔ اس کے علاوہ اسلامک ڈیولپمنٹ بینک کے ایک وفد نے تلنگانہ حکومت کو اس بات کا پیشکش کیا تھا کہ بینک کے پاس اوقافی جائیدادوں کی ترقی کیلئے سرمایہ کاری کی گنجائش ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر اس سلسلہ میں مرکزی حکومت سے مشاورت کیلئے نئی دہلی روانہ ہورہے ہیں جہاں وہ مرکزی وزیر اقلیتی اُمور نجمہ ہپت اللہ اور اعلیٰ عہدیداروں سے مشاورت کریں گے۔ا نہوں نے کہا کہ وہ اسلامک ڈیولپمنٹ بینک سے بھی مذاکرات کریں گے۔ حکومت کو اوقافی جائیدادوں پر ناجائز قبضوں اور ان کی تباہی کا شدت سے احساس ہے لہذا وہ مزید کسی تجربہ کے ذریعہ خانگی ہاتھوں میں قیمتی اراضیات کو دینا نہیں چاہتی۔