اوقافی امور پر وقف مافیا کا بڑھتا اثرورسوخ اسپیشل آفیسر کی عدم موجودگی سے کارکردگی ٹھپ

حیدرآباد۔/28مارچ، ( سیاست نیوز) وقف بورڈ میں گزشتہ چند دنوں سے اسپیشل آفیسر کی عدم موجودگی کے باعث تمام اہم سرگرمیاں عملاً ٹھپ ہوچکی ہیں ۔ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ و صیانت کے علاوہ عدالت میں زیر دوران مقدمات کی پیروی جیسے اہم اُمور کے سلسلہ میں فیصلہ کیلئے اعلیٰ عہدیدار موجود نہیں ہے جس کے باعث وقف مافیا اوقافی اُمور پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ واضح رہے کہ 24مارچ کو حیدرآباد ہائی کورٹ کے جسٹس کودنڈا رام نے اسپیشل آفیسر کے تقرر کو چیلنج کرتے ہوئے داخل کی گئی درخواست پر تقرر سے متعلق احکامات کو عارضی طور پر کالعدم کردیا۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد سے اسپیشل آفیسر جلال الدین اکبر نے وقف بورڈ کی سرگرمیوں سے خود کو علحدہ کرلیا ہے۔ وہ ڈائرکٹر اقلیتی بہبود کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ اوقاف سے متعلق کسی بھی فائیل کی یکسوئی سے گریز کررہے ہیں۔ انہوں نے وقف بورڈ کے دفتر واقع حج ہاوز آنا بھی بند کردیا ہے۔ حکومت اگرچہ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کرنے کی تیاری کررہی ہے تاہم آئندہ سماعت کیلئے وقت درکار ہوگا۔ اس طرح وقف مافیا نے جلال الدین اکبر کو اسپیشل آفیسر کی ذمہ داریوں سے دور رکھنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ بتایا جاتا ہے کہ ان عناصر کی وقف بورڈ کے بعض عہدیداروں سے ملی بھگت ہے جو ابتداء سے وقف مافیا کی تائید میں ہے۔ جلال الدین اکبر نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور ناجائز قابضین کے خلاف کئی اہم فیصلے کئے۔ انہوں نے کرایہ داروں کے کرایوں پر نظر ثانی میں دلچسپی لے کر وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ کیا۔ وقف مافیا کیلئے جلال الدین اکبر کھٹک رہے تھے اور عدالت کے عبوری احکام کے ذریعہ فی الوقت وقف بورڈ کو اسپیشل آفیسر کو محروم کردیا گیا ہے۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد سے وقف بورڈ میں اسپیشل آفیسر موجود نہیں اور ساری سرگرمیاں انچارج سی ای او کے تحت جاری ہیں۔ وقف بورڈ میں مستقل چیف ایکزیکیٹو آفیسر موجود نہیں اور طویل عرصہ سے بورڈ کے لا آفیسر، انچارج سی ای او کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وقف سے متعلق کئی اُمور ایسے ہیں جن میں سی ای او کو فیصلہ کا اختیار نہیں اس کے لئے اسپیشل آفیسر کی منظوری ضروری ہے۔ ان حالات میں وقف بورڈ کی سرگرمیاں عملاً ٹھپ ہوچکی ہیں۔ حکومت نے اگرچہ ایڈوکیٹ جنرل کے ذریعہ اس مقدمہ کی پیروی کا فیصلہ کیا ہے تاہم ابھی تک اسپیشل آفیسر کے عہدہ کی زائد ذمہ داری کسی کو نہیں دی گئی۔ وقف بورڈ کی عدم موجودگی کی صورت میں اسپیشل آفیسر کو مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والی حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت نے اسپیشل آفیسر کے تقرر کو جائز قرار دینے یا پھر نئے آفیسر کے تقرر کے سلسلہ میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہے تو وہ اس عبوری حکمنامہ کے بارے میں خصوصی مرافعہ داخل کرتے ہوئے ریلیف حاصل کرسکتی ہے۔ اگر اسپیشل آفیسر کے بغیر ہی وقف بورڈ کی سرگرمیاں جاری رہیں تو اندیشہ ہے کہ وقف بورڈ نہ صرف کئی اہم جائیدادوں کے تحفظ میں ناکام ہوجائے گا بلکہ وقف مافیا کے مقاصد کی تکمیل ہوگی۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں فوری توجہ مرکوز کرے اور اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور وقف بورڈ کی کارکردگی بہتر بنانے کے اقدامات کرے۔