اننت پور میں وقف بورڈ آفیسرس کی چوکسی سے معاملت روک دی گئی
حیدرآباد۔/3ستمبر، ( سیاست نیوز) اوقافی جائیدادوں کا تحفظ اگرچہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش دونوں حکومتوں کیلئے ایک دشوار کن مرحلہ ہے لیکن اگر حکومت میں شامل افراد بھی اوقافی جائیدادوں پر قبضہ کریں تو پھر دوسروں سے کیا شکوہ۔ حکومت میں شامل اور برسراقتدار پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے اکثر و بیشتر اوقافی جائیدادوں سے متعلق اُمور میں مداخلت اور قبضوں کی شکایات سابق میں بھی عام رہی ہیں لیکن گزشتہ دنوں آندھرا پردیش حکومت کے ایک وزیر نے اننت پور ضلع کے ہندو پور میں اوقافی جائیداد پر نہ صرف قبضہ کرلیا بلکہ متولی سے اراضی کی خریدی کا معاہدہ کرلیا۔ وقف بورڈ کے اسپیشل آفیسر اور چیف ایکزیکیٹو آفیسر کی فوری چوکسی کے باعث یہ معاملت نہ صرف روک دی گئی بلکہ مذکورہ وزیر نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اوقافی جائیداد سے دستبرداری اختیار کرلی۔ آندھرا پردیش کے وزیر اقلیتی اُمور ڈاکٹر پلے رگھوناتھ ریڈی کے تحت چلنے والے بالاجی ایجوکیشنل سوسائٹی کے زیر انتظام کئی کالجس ہیں، ان کالجس کیلئے راستہ حاصل کرنے کیلئے جامع مسجد اور قبرستان کی اراضی حاصل کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ پہلے مرحلے میں 40 فٹ چوڑی سڑک کیلئے اراضی حاصل کی گئی اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں دوبارہ 40فٹ سڑک کی توسیع کیلئے اراضی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح مجموعی طور پر 10 سینٹس اراضی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جس کا رقبہ تقریباً 678 گز ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیر موصوف نے مسجد کمیٹی اور قبرستان کے متولی پر اثرانداز ہوکر پہلے مرحلہ میں کچھ اراضی حاصل کرلی تھی۔ یہ اراضی نمکام پلی موضع میں واقع ہے اور جس کا نمبر درج اوقاف ہے۔ دوسرے مرحلہ میں جب اراضی کے کچھ حصہ کو سڑک کیلئے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور مرحلہ رجسٹریشن تک پہنچا تو ڈائرکٹر ٹاؤن اینڈ کنٹری پلاننگ حکومت آندھرا پردیش نے اس سلسلہ میں وقف بورڈ سے وضاحت طلب کی۔ چونکہ یہ اراضی اوقافی ہے لہذا وقف بورڈ سے اس کا موقف حاصل کیا گیا۔ (باقی سلسلہ صفحہ 8 پر )