روزمرہ معمولات کی انجام دہی میں ہم مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں جس میں گھٹنوں کا درد ایسا مرض ہے جو اگر شدت اختیار کر جائے تو انسان کی حرکات و سکنات کو محدود کرسکتا ہے۔اگر یہ درد اتنا شدید ہو کہ آپ کو اٹھنے بیٹھنے میں دشواری کا سامنا ہو تو یہ آرتھرائٹس بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں سب سے بہتر ہے کہ ڈاکٹر سے رجوع کریں۔لیکن یہاں ہم 5 ایسی غذاؤں کا ذکر کررہے ہیں جو گھٹنے کے درد کی تکلیف سے نجات میں آپ کی مدد کرسکتی ہیں۔
گھٹنے کے ساتھ جوڑوں کے درد کی تکلیف میں سیب کا سرکہ انتہائی مفید ہے اس میں جوڑوں کے درمیان پائی جانے والے گودے میں اضافہ کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جس سے آپ درد میں کمی ہوگی اور آسانی سے اپنے تمام کام انجام دے سکیں گے۔آپ اسے روزانہ سونے سے قبل پانی میں ڈال کر پی سکتے ہیں اس کے علاوہ اس کی تھوڑی مقدار پانی کے ٹب میں شامل کر کے گھٹنے کو اس میں بھگونا بھی مفید ہوگا۔اس کے علاوہ سیب کے سرکے کو کھوپرے کے تیل میں شامل کر کے متاثرہ مقام پر اس کی مالش کرنے سے بھی فائدہ پہنچے گا۔
ادرک ایک ایسی سبزی ہے جس میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو درد کشا ہیں جبکہ اس میں سوزش کم کرنے کی بھی صلاحیت موجود ہے چناچہ آرتھرائٹس اور پٹھوں کے کھچاؤ اور چوٹ لگنے کی صورت میں اس کا استعمال انتہائی مفید ہے۔اسے استعمال کرنے کے لیے تازہ ادرک کا ایک ٹکڑا ایک کپ ابلے ہوئے پانی میں ڈال کر ابالیں ، بہتر ذائقے کے لیے آپ اس میں لیموں کا رس اور شہد بھی شامل کرسکتے ہیں، آپ ادرک کی اس چائے کے 2 سے 3 کپ وقفے وقفے دن بھر میں استعمال کرسکتے ہیں۔اس کے ساتھ درد کی جگہ پر ادرک کے تیل کی مالش سے بھی درد کم کرنے میں مدد ملے گی۔
ایشیائی کھانوں میں استعمال ہونے والی یہ انتہائی مفید شے اینٹی آکسیڈنٹ اجزا سے مالا مال ہے اس میں نہ صرف درد کم کرنے بلکہ سوجن کم کرنے کی صلاحیت بھی شامل ہے۔ہلدی میں زخم کو اندرونی طور پر ٹھیک کرنے کی بہترین صلاحیت بھی موجود ہے۔اسے استعمال کرنے کے لیے نیم گرم دودھ میں ہلدی پاؤڈر شامل کر کے پیئں اس کے علاوہ آپ اسے ادرک کی چائے میں ادرک کے ساتھ ہی ابال کر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔جبکہ معالج کے مشورے سے 250 ملی گرام سے 500 ملی گرام کی مقدار والے ہلدی کے کیپسول بھی دن میں 2 سے 3 دفعہ لیے جاسکتے ہیں۔
لیموں میں صحت کے حوالے سے بے پناہ فوائد موجود ہیں، اس میں موجود سٹرک ایسڈ یورک ایسڈ کی زیادتی کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو آرتھرائٹس کا سبب بنتا ہے، اس کے ساتھ لیموں میں بھی سوزش کم کرنے درد کشا اجزا موجود ہیں۔ لیموں کا استعمال ہاضمے اور وزن کم کرنے کے لیے بھی بہت اچھا ہے۔ اس کے استعمال کے لیے آپ کو یہ کرنا ہے کہ لیموں کے چھوٹے ٹکڑے ململ کے کپڑے میں لپیٹ کر نیم گرم تل کے تیل میں ڈال دیں اور پھر اس پوٹلی کو نکال کر درد کے مقام پر 5 سے 10 منٹ کے لیے رکھیں۔اس کے ساتھ آپ لیموں کے رس کو پانی میں ڈال کر بھی پی سکتے ہیں جبکہ ادرک کی طرح لیموں کی چائے بھی درد سے نجات میں مفید ہے۔
سرخ مرچ
سرخ مرچ میں کیپسیسن نامی مادہ پایا جاتا ہے جو گھٹنے کا درد ختم کرنے میں تریاق کا اثر رکھتا ہے، اپنی خصوصی صلاحیتوں کی بنا پر یہ انتہائی درد کشا ہے۔ سرخ مرچ صرف کھانے میں ذائقہ کے لیے نہیں بلکہ صحت کے لیے بھی متعدد فوائد کی حامل ہے۔اسے استعمال کرنے کے لیے آدھا کپ نیم گرم زیتون کے تیل میں 2 کھانے کے چمچ سرخ مرچ کا پاؤڈر شامل کریں اور اس پیسٹ کو روزانہ 2 مرتبہ متاثرہ مقام پر مالش کریں۔اس ٹوٹکے کا ایک ہفتے تک مسلسل استعمال درد سے نجات میں بہتر نتائج دے سکتا ہے لیکن خیال رہے کہ متاثرہ جگہ پر کسی قسم کا زخم نہ ہو۔
اومیگا تھری اور سکس سپلیمنٹس ذیابیطس ٹائپ 2 جیسے جان لیوا خاموش قاتل مرض سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔یہ بات کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔Guelph یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ان سپلیمنٹس کو 12 ہفتے تک اپنی غذا کا حصہ بنانے سے موٹاپے کے شکار چوہوں میں گلوکوز کی سطح میں کمی جبکہ گلوکوز کنٹرول بہتر ہوا۔
اومیگا تھری عام طور پر مچھلی یا مچھلی کے تیل کے کیپسول میں پائے جانے والا جز ہے جبکہ اومیگا سکس گریوں میں پایا جاتا ہے، یہ دونوں ان 135 جینز پراثرانداز ہوتے ہیں جو کہ انسولین بنانے والے پروٹینز کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار افراد کے جسم انسولین کو بنانے یا کافی مقدار میں بنانے سے قاصر ہوجاتے ہیں، جس سے بلڈشوگر لیول بڑھتا ہے۔
ہائی بلڈ گلوکوز کی سطح میں تسلسل سے اضافہ خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا کر گردوں اور دل کے امراض کا باعث بنتا ہے جبکہ نابینا پن کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران چوہوں کو اومیگا تھری یا سکس فیٹی ایسڈز پر مشتمل فوڈ سپلیمنٹس کا استعمال کرایا گیا۔
اس سے قبل گزشتہ سال کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کا زیادہ استعمال بینائی کو کمزور ہونے سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔
مچھلی کے تیل میں پائے جانے والا ایک کیمیکل ان خلیات کی بقا کا امکان بڑھاتا ہے جو کہ بینائی کے انتہائی ضروری ہیں، جس سے عمر بڑھنے سے آنے والی بینائی کی کمزوری سے تحفظ ملتا ہے۔
اس نئی تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل Physiological Genomics میں شائع ہوئے۔