انکارِ طلاق

حضرت مولانامفتی محمد عظیم الدینمفتی جامعہ نظامیہ
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید اپنی بیوی ہندہ کو جبکہ وہ اپنے بھائی کی شادی کے سلسلہ میں اپنے مانباپ کے ہاں آئی ہوئی تھی تین طلاق دیدیا۔ اسوقت ہندہ اور اسکے والد کے علاوہ بہت سارے مہمان بھی موجود تھے جو اس واقعہ کے گواہ ہیں۔ اب زید طلاق نہیں دیا کہہ رہا ہے۔
ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : صورت مسئول عنہا میں ہندہ کو چاہئے کہ وہ عدالت میں رجوع ہوکر قاضی {مسلم حاکمِ عدالت} کے پاس زید کو طلب کرکے اپنے دوگواہ پیش کرے۔ اگر یہ گواہ اشہد باﷲ کہہ کر گواہی دیں کہ زید نے ہندہ کو تین طلاق دئیے ہیں تو ہندہ پر تین طلاقیں واقع ہوکر زوجیت کا تعلق منقطع ہوجائیگا اور بغیر حلالہ زید و ہندہ کا آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں ہو سکتا۔ اور اگر ہندہ گواہ پیش نہ کرسکے تو حاکم، شوہر کو حلف دلوائے گا اگر زید حلف اٹھالے تو ہندہ اس کی بیوی رہے گی اور اگر زید حلف اٹھانے سے انکار کردے تو پھر ہندہ پر تین طلاقیں واقع ہوجائینگی۔ فتاوی مہدیہ جلد اول صفحہ ۱۷۴ کتاب الطلاق میں ہے {سئل} فی رجل حصل بینہ وبین صھرہ مشاجرۃ ومناقشۃ فادعت زوجتہ بأنہ طلقھا عنادا مع زوجھا فأنکر دعواھا فھل اذا لم تقم علیہ بینۃ بالطلاق یکون القول قولہ بیمینہ فی عدم الطلاق المدعی بہ وعلیہا طاعتہ {اجاب} القول للزوج بیمینہ حیث لا بینۃ للزوجۃ علی دعواھا الطلاق۔

خلع کیلئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر بیوی اپنے شوہر زید سے خلع لینا چاہے تو کیا اس کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں ۔ ایسی صورت میں شرعی کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : صورت مسئول عنہا میں بیوی کی درخواست خلع کو شوہر کا قبول کرنا ضروری ہے۔

عمداً جھوٹی قسم کے بعد توبہ ہے
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک مسجد کی کمیٹی کو یہ باور کرایا کہ وہ حافظ قرآن و قاری ہے، اسی بناء پر موصوف کا تقرر امامت کیلئے ہوا۔ پندرہ دن بعد انہوں نے ایک شریف الخاندان گھرانے میں یہ کہہ کر شادی کی کہ وہ غیر شادی شدہ ہیں عورت کی صورت تک نہیں دیکھی، اس پر انہوں نے قسم بھی کھائی۔ ان پر بھروسہ کرکے لڑکی والوں نے عقد کردیا۔ چھ ماہ بعد معلوم ہواکہ صاحب موصوف کسی دوسری مسجد میں بحیثیت امام تھے اور وہاں پر اپنا نام بکر رکھا تھا اور شادی شدہ ہیں بیوی اور دو بچے ہیں۔ موصوف کے حافظ ہونے پر شک ہوا اور دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ میں پورے قرآن کا حافظ ہوں ایک تا بائیس پارے اچھی طرح یاد ہیں بعد کے آٹھ پارے جہاں پر متشابہات ہیں وہاں حفظ پکا نہیں ہے۔
ان حالات کی بناء پر موصوف کو یکم ڈسمبر ۱۹۷۱ ؁ء سے خدمت امامت سے معطل کیا گیا۔ اب موصوف اپنی غلطیوں پر نادم و شرمندہ ہیں اور بارگاہ رب العزت میں توبہ کرکے آئندہ جھوٹ و فریب سے پرہیز کرنے کا وعدہ کررہے ہیں اور تمام مقتدیوں و محلہ کے مسلمان بھائیوں سے معافی کے خواہاں ہیں۔
ایسی صورت میں صاحب موصوف کو معاف کرتے ہوئے خدمت امامت پر رجوع کیا جاسکتا ہے یا کیا ؟ بینوا تؤجروا
جواب : صورت مسئول عنہا میں زید نے جو جھوٹی قسم کھائی اور مسلمانوں کو غلط باور کرایا اس پر نادم ہوکر بارگاہ رب العزت میں تائب ہیں اور آئندہ سے ایسے ناشائستہ و غیر شرعی اعمال نہ کرنے کا عہد واثق کرتے ہیں تو ان کو خدمت امامت پر رکھا جاسکتا ہے۔ امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ بھی معاف فرمادیں۔ درمختار کے کتاب الایمان جلد ۴ ص ۵۱میں ہے اثم الکبائر متفاوت نھر {ان حلف علی کذب عمدا} … {ویأثم بھا} فتلزمہ التوبۃ۔ اور ردالمحتار میں {قولہ فتلزمہ التوبۃ} اذ لاکفارۃ فی الغموس یرتفع بھا الاثم فتعینت التوبۃ للتخلص منہ۔