جکارتہ ۔ 25 مئی (سیاست ڈاٹ کام) انڈونیشیا میں بدترین حملے کے بعد اب ایک نیا قانون منظور کیا گیا ہے جس کے تحت پولیس کو کسی بھی مشتبہ دہشت گرد کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے زائد اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔ یاد رہیکہ مجوزہ بل دو سال سے پارلیمنٹ میں لیت و لعل کا شکار ہے کیونکہ اس سے متعلق ہر تفصیل سے پارلیمنٹ واقف ہونا چاہتی ہے جس میں دہشت گردی کی تشریح بھی شامل ہے کہ آخر دہشت گردی ہے کہ کس چڑیا کا نام! تاہم جاریہ ماہ سلسلہ وار خودکش بم دھماکوں نے بالآخر قانون سازوں پر بھی دباؤ ڈالا اور انہوں نے بل کو قانون بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ اس طرح اب پولیس کو کسی بھی مشتبہ دہشت گرد کو 21 دنوں تک اپنی تحویل میں رکھنے کا اختیار ہوگا جبکہ موجودہ طور پر صرف سات دنوں کیلئے رکھا جاتا تھا۔ اس طرح پولیس کو یہ اختیار بھی حاصل رہے گا کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کے خلاف دہشت گرد گروپ میں شمولیت اختیار کرنے یا کسی کو بھرتی کرانے میں ملوث ہونے پر (چاہے وہ مقامی دہشت گرد تنظیم ہو یا بیرونی) قانونی کارروائی کی جائے گی۔ دوسری طرف دائیں بازو کے گروپ نے اس نئی قانون سازی پر یہ کہہ کر تشویش کا اظہار کیا ہیکہ اس طرح پولیس کو کسی بھی گروپ کے خلاف (اگر پولیس یہ سمجھتی ہیکہ اس سے خطرہ ہے) کارروائی کرسکتی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہیکہ جاریہ ماہ انڈونیشیا کے دوسرے سب سے بڑے شہر سورابیا میں مختلف چرچس اور ایک پولیس اسٹیشن میں علحدہ طور پر کئے گئے خودکش حملوں میں 13 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔