انوارالعلوم کالجس کو راست نگرانی میں لینے وقف بورڈ کا فیصلہ

لینکو ہلز اراضی بورڈ کے حوالے کی جائے ، جائیدادوں کو لیز پر دینے کے بجائے ترقی دینے کی تجویز
حیدرآباد ۔ 5۔ جولائی (سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ نے انوارالعلوم کالجس کو اپنی راست نگرانی میں لینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ہائیکورٹ نے وقف بورڈ کو ہدایت دی کہ وہ وقف ریکارڈ کے مطابق انوارالعلوم تعلیمی اداروں کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں۔ تلنگانہ وقف بورڈ کا اجلاس صدرنشین محمد سلیم کی صدارت میں آج حج ہاؤز میں منعقد ہوا جس میں کئی اہم فیصلے کئے گئے۔ بورڈ نے عدالتی احکام کی تعمیل میں انوارالعلوم کالجس کو اپنی تحویل میں لیتے ہوئے اداروں کی نگرانی اور تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی میں سابق وائس چانسلر تلنگانہ یونیورسٹی پروفیسر اکبر علی خاں وقف بورڈ کے ارکان تفسیر اقبال آئی پی ایس ، صوفیہ بیگم ایڈوکیٹ ، نثار حسین حیدر آغا ، ذاکر حسین جاوید اور وحید احمد ایڈوکیٹ شامل ہیں۔ کمیٹی کے کنوینر چیف اگزیکیٹیو آفیسر وقف بورڈ ایم اے منان فاروقی ہوں گے ۔ کمیٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ طلبہ کی تعلیم متاثر نہ ہو۔ بورڈ نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اداروں کو راست نگرانی میں لیتے ہوئے منشائے وقف کی تکمیل پر توجہ مرکوز کی جائے ۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس سلسلہ میں جلد ہی احکامات جاری کئے جائیں ۔ بورڈ نے درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کی وقف اراضی سے متعلق سپریم کورٹ میں جاری مقدمہ میں حکومت سے نمائندگی کا فیصلہ کیا۔ حکومت سے اس بات کی خواہش کی جائے گی کہ وہ وقف اراضی پر اپنی دعویداری سے سپریم کورٹ میں دستبردار ہوجائے۔ اس طرح منی کنڈہ جاگیر کی مکمل اراضی از خود وقف بورڈ کی تحویل میں آجائے گی۔ اجلاس جو 6 گھنٹوں جاری رہا ، اس میں زیادہ تر اوقافی جائیدادوں کی ترقی کے ایجنڈہ پر غور کیا گیا۔ حکومت نے جن 11 اہم جائیدادوں کو 30 سالہ لیز پر دینے کی اجازت دی ہے ، اس سلسلہ میں بورڈ نے حکومت سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بورڈ کے ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ اراضیات کو لیز پر دینے کے بجائے خود وقف بورڈ اپنے فنڈ سے اراضیات کو ڈیولپ کرے تاکہ بورڈ کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ اجلاس میں فیصلہ کیا کہ 20 جولائی کو بورڈ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جائے جس میں اوقافی جائیدادوں کی ترقی سے متعلق بلیو پرنٹ تیار کیا جائے جس کی بنیاد پر حکومت سے فنڈس کیلئے نمائندگی کی جاسکے۔ ارکان کا احساس تھا کہ بورڈ اگر اپنے طور پر جائیدادیں ڈیولپ کرے گا تو وہ اس کی آمدنی مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرسکتا ہے۔ 20 جولائی کے اجلاس میں صرف ترقیاتی ایجنڈہ پر غور ہوگا اور مسجد اور درگاہوں کی کمیٹیاں ایجنڈہ میں شامل نہیں رہیں گی۔ صدرنشین محمد سلیم نے کہا کہ ماہر آرکیٹکٹس کے ذریعہ پراجکٹس رپورٹ تیار کی جائے گی جس کے ساتھ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ سے نمائندگی کرتے ہوئے خصوصی فنڈ جاری کرنے کی اپیل کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اوقافی جائیدادوں کی آمدنی سے بیواؤں کو وظائف اور غریب مسلمانوں کو تعلیم اور صحت کیلئے امداد فراہم کرنے کی تجویز ہے۔ اجلاس نے ترقیاتی منصوبہ پر مسلم عوامی نمائندوں سے تجاویز حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس کے ایجنڈہ میں تقریباً 70 سے زائد امور شامل تھے جن میں 25 مساجد کمیٹیوں کو منظوری دی گئی ۔ اس کے علاوہ بعض متولیوں کی میعاد میں توسیع کا فیصلہ کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اجلاس میں درگاہ حضرات یوسفینؒ کے موجودہ متولی کی میعاد میں توسیع کا مسئلہ بھی زیر بحث رہا۔ تاہم اس سلسلہ میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ متولی کی میعاد جاریہ ماہ ختم ہورہی ہے ، لہذا بورڈ نے آئندہ اجلاس میں ان کی درخواست کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بعض ارکان نے تجویز پیش کی کہ متولی کے فینانشل پاورس وقف بورڈ حاصل کرلیں اور کرایہ حاصل کرنے کا اختیار ختم کیا جائے اور وقف بورڈ خود کرایہ حاصل کرے۔ درگاہ کی تمام ہنڈیاں وقف بورڈ اپنی تحویل میں لیں۔ صدرنشین محمد سلیم نے بتایا کہ وقف بورڈ کے ذریعہ غریبوں کے مفت علاج کیلئے ہاسپٹل کے قیام کی تجویز زیر غور ہے۔ انہوں نے مساجد اور درگاہوں کے تحت موجود قبرستانوں میں قبر کیلئے رقم حاصل کرنے کی شکایات پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جو کمیٹی بھی قبر کیلئے رقم کا مطالبہ کرے گی ، اسے پہلے وجہ نمائی نوٹس جاری کی جائے گی اور بعد میں کمیٹی تحلیل کردی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے تمام قبرستانوں میں مفت تدفین کا انتظام ہونا چاہئے اور جہاں بھی رقم حاصل کرنے کی شکایات ملیں گی ، وقف بورڈ ان کمیٹیوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گا۔ بورڈ کے اجلاس میں ارکان تفسیر اقبال آئی پی ایس ، مولانا سید اکبر نظام الدین ، مولانا سید نثار حسین حیدر آغا، اسد اویسی ایم پی، مرزا انور بیگ، ملک معتصم خاں، رکن اسمبلی معظم خاں ، ذاکر حسین جاوید اور ایم اے وحید ایڈوکیٹ نے شرکت کی۔