انصاف

سکندراعظم جب ساری دنیا کو فتح کرنے نکلا تو راستہ میں اُس کا گزر افریقہ کے ایک ایسے ملک سے ہوا جو براعظم کے ایک گمنام گوشے میں واقع تھا ۔ یہاں کے لوگ جھونپڑیوں میں رہتے تھے ۔ وہ جنگ کے تصور سے بالکل نا آشنا تھے ۔ وہاں کے باسی سکندرآعظم کو اپنے سردار کی جھونپڑیوں میں لے گئے ۔ سردار نے نہایت گرم جوشی سے اُن کا استقبال کیا اور کھانے کیلئے اُس کے سامنے سونے کی کھجوریں ، سونے کی انجیریں اور سونے کی روٹیاں رکھیں۔ ’’کیا تم سونا کھاتے ہو‘‘ سکندراعظم نے سردار سے پوچھا۔
’’ہاں ‘‘ سردار نے جواب دیا ’’ میں سمجھتا ہوں کہ کھانے کی چیزیں تمہیں مل جاتی ہوں گی پھر تم یہاں کیوں آئے ہو ‘‘۔ ’’میں تمہارا سونا لینے ہرگز نہیں آیا ہوں ‘‘ سکندر نے جواب دیا ۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ تم لوگوں کے آداب اور رسم و رواج سے آگاہ ہوجاؤں ‘‘ ۔ ’’تب تو تم جب تک چاہو ہمارے ہاں ٹھہرسکتے ہو ‘‘ ۔ سردار نے کہا ۔ یہ گفتگو ہوہی رہی تھی کہ جھونپڑی میں دو آدمی داخل ہوئے جو شکایتیں پیش کرنے آئے تھے ۔ مدعی نے کہا کہ اس شخص سے میں نے کچھ زمین خریدی تھی ۔ تھوڑے دن پہلے جب میں زمین میں ہل چلا رہا تھا تو مجھے اس کے اندر سے خزانہ ملا ۔ یہ خزانہ ظاہر ہے کہ میرا نہیں ہوسکتا اس لئے کہ میں نے زمین خریدی تھی نہ کہ ایک اس کے اندر کے چھپے ہوئے خزانے لیکن زمین کا مالک خزانہ لینے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہے ‘‘۔ مدعا علیہ نے جواب دیا ’’ میں سمجھتا ہوں کہ میرے بھائی کا ضمیر ابھی سویا نہیں ہے ۔ میں نے یہ زمین فروحت کی تھی تو تمام مشمولات کے ساتھ اس کی ہوگئی ۔ اب اگر اس میں خزانہ ہے تو یہ بھی اس کا ہونا چاہئے نہ کہ میرا‘‘۔ سردار نے جوکہ ان کا منصف تھا ، دونوں کا موقف ان کے سامنے دوہرایا تاکہ فریقین کی بات سمجھنے میں اس سے غلطی ہوئی ہو تو وہ اسے درست کرسکیں۔ پھر کچھ سوچ کر اس سے کہا ’’دوست تمہارا کوئی لڑکا ہے ؟ ‘‘ ، ’’ہاں ‘‘ اور تمہارے ہاں لڑکی ہے ‘‘ ۔ اس نے دوسرے کو مخاطب کیا ’’ہاں ‘‘ ، ’’پھر ٹھیک ہے ۔ تم اپنی لڑکی کی شادی اس کے لڑکے سے کردو اور خزانہ بچوں کی شادی پر تحفہ میں دے دو ‘‘ ۔ سکندراعظم یہ سن کر بہت حیران ہوا ۔ ’’کیا میرا فیصلہ تمہیں غیرمنصفانہ لگتا ہے ‘‘ ۔ سردار نے پوچھا ۔ ’’نہیں ‘‘ سکندراعظم نے جواب دیا ۔

’’لیکن میرے لئے حیران کن ضرور ہے ‘‘ ۔ ’’اچھا اسی طرح کا مقدمہ تمہارے ملک میں پیش ہوتا تو اس کا فیصلہ کیا ہوتا ؟ ‘‘۔ ’’سچی بات یہ ہے ‘‘ سکندر نے شروع کیا ’’ہم دونوں فریقوں کو حوالات بھیج دیتے اور خزانہ بحق بادشاہ ضبط کرلیا جاتا ‘‘ ۔ ’’بحق بادشاہ ؟ ‘‘ سردار نے کہا ’’تمہارے ملک پر سورج چمکتا ہے ؟ ‘‘ ، ’’کیوں نہیں ‘‘ ۔ ’’کیا وہاں بارش ہوتی ہے ؟‘‘ ، ’’یقیناً ‘‘ ’’تعجب ہے ، لیکن کیا تمہارے ملک میں ایسے جانور ہیں جو سبزیوں اور چراگاہوں پر جیتے ہیں ؟‘‘ ۔ ’’ہاں بہت سے اور بہت سی اقسام کے ‘‘ اوہو تو پھر یہی وجہ ہے ‘‘ سردار نے کہا ۔ ’’انہی معصوم جانوروں ہی کے لئے خداوند کریم تمہارے ملک پر سورج چمکاتا اور بارش برساتا ہوگا ورنہ اس ملک کے لوگ پروردگار کی ان عنایتوں اور رحمتوں کے مستحق نہیں ہیں‘‘۔