حیدرآباد میں دو بم دھماکوں کے ملزمین کو سزا سنانے کی تیاری کرنے والی خصوصی عدالت نے دو افراد کو ماخوذ کیا اور دو کو بری کردیا ۔ تلنگانہ پولیس کی کاونٹر انٹلی جنس ونگ کی تحقیقات کی بنیاد پر اس نے مبینہ طور پر انڈین مجاہدین سے وابستگی کے الزام کے ساتھ پانچ افراد کو گرفتار کیا تھا ۔ اس ایجنسی نے پانچ ملزمین کے خلاف 4 چارج شیٹ داخل کئے تھے اور دیگر دو کو مفرور قرار دیا تھا۔ اس کیس میں عدالت کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا ۔ اگر کیس کو مجہول تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر نمٹا گیا ہے تو اصل خاطیوں کو قانون سے آسانی سے بچ نکلنے کا موقع ملے گا ۔ 25 اگست 2007 کو شہر کے مصروف گوکل چاٹ اور لمبنی پارک میں بہ یک وقت دو دھماکے ہوئے تھے جس میں 42 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے ۔ عدالت کو اس کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے 11 سال کا وقت درکار ہوا ۔ حیدرآباد میں بم دھماکوں کے ایک اور کیس میں عدالت نے جرم قبول کرنے والے اسیما آنند کو بری کردیا تھا جو مکہ مسجد بم دھماکہ میں ماخوذ تھا ۔ اس کے دیگر ساتھیوں کو بھی غیر موافق شواہد کی بنیاد پر سزا سے بچایا گیا لیکن اس جڑواں دھماکہ کیس میں عدالت اور پولیس کی تحقیقاتی ایجنسی کی مستعدی نے انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ملزمین کو سزا کا مستحق قرار دیا ۔ اگر واقعی یہ فیصلہ انصاف کے عین مطابق ہوا ہے تو پھر دھماکوں سے متاثرہ خاندانوں کو راحت ملے گی اور ان کو انصاف حاصل ہوجائے گا ۔ اگر شبہ کی بنیاد پر یا پولیس کی زیادتیوں کے ذریعہ تیار کردہ رپورٹ کی رو سے عدالتی چارہ جوئی اور وقت کے ضیاع کا مرحلہ مکمل کرلیا گیا تو پھر اصل خاطی اس طرح کے حملے کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ متحرک ہوں گے ۔
جیسا کہ اس کیس میں ماخوذ کیے گئے ایک ملزم نے سکنڈ میٹرو پولیٹن سیشن جج کے سامنے پیش کردہ اپنے تحریری بیان میں صاف کہہ دیا ہے کہ پولیس نے اسے زبردستی اقبال جرم کروایا ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں دھماکوں میں ملوث ہونے کا اقرار کروانے کے لیے اسے برقی شاک دیئے جانے کی بھی شکایت کی ہے اور عدالت سے امید ظاہر کی تھی کہ اس کے ساتھ انصاف ہوگا ۔ ملزم کا کہنا غور طلب ہے کہ دھماکوں کا اس کو کوئی علم نہیں ہے ۔ ان دھماکوں کے کیس میں کئی مسلم نوجوانوں کو بھی دہشت گردی کے الزامات عائد کر کے جھوٹے مقدمات درج کروائے گئے تھے ۔ پولیس اور حکومت کی جانب سے شدید دباؤ اور میڈیا کے علاوہ سماج کے دیگر گوشوں سے حکومت کے خلاف ہونے والی تنقیدوں کے بعد دھماکوں میں مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرتے ہوئے پولیس اصل خاطیوں کو گرفتار کرنے میں اپنی ناکامی کو پوشیدہ رکھنے کے لیے بے قصور نوجوانوں کو اٹھالیا تھا ۔ اگر ملزم کے بیان میں سچائی ہے تو اس پر عدالت کو غور کرنے کی ضرورت تھی ۔ ویسے ہر جرم کرنے والا خود کو مجرم قرار نہیں دیتا لیکن قانون اور عدلیہ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ بے قصور افراد کو غیر ضروری سزا سے بچائے لیکن اس معاملے میں عدالت نے وہی قدم اٹھایا جس کا کہ اسے راہ دکھائی گئی تھی ۔ یعنی پولیس تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر اس سارے کیس سے نمٹا گیا ہے ۔ عدالت نے ملزمین کے لیے سزا کا فیصلہ موخر کردیا ۔ دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث افراد کو سزا دیا جانا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ بے قصور افراد کو ماخوذ کرنے سے گریز کرنا بھی قانونی ذمہ داری ہے ۔
انہی عدالتوں نے سابق میں کئی بم دھماکوں کے کیسوں میں ملزمین کی برات کو یقینی بنایا تھا ۔ خاص کر مکہ مسجد بم دھماکہ میں ملوث افراد کے ساتھ پولیس اور عدالت کا کیا معاملہ تھا ۔ یہ سب جانتے ہیں ۔ اگر اس ملک میں قانون کا نفاذ اور انصاف کو یقینی بنانے کا طریقہ کار مطلب براری پر مبنی ہونے لگے تو پھر ہندوستانی معاشرہ کو آنے والے دنوں دیگر عنوانات سے سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ کیوں کہ اصل خاطی آزاد ہوں گے تو ان کے حوصلے بھی بلند ہوتے جائیں گے ۔ بے قصور افراد کو سزا ملنے کے بعد عدلیہ کی انصاف پسندی اور اس کا تقدس جھکولے کھاتے ہوئے نظر آئے گا ۔ بم دھماکوں کے ذریعہ انسانی جانوں کو ختم کرنے والی گھناونی حرکتوں اور اس طرح کی درندگی کرنے والوں کو حتمی سزا دینے کی گنجائش ہے تو اس پر عمل کرنے سے عدلیہ کو گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ ایسے واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دیتے ہوئے ہی ملک میں امن و امان کی فضا برقرار رکھی جاسکتی ہے ۔ لہذا عدلیہ کو انصاف پسندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔