اللہ تعالی تمھیں منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور نہ انھوں نے تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان کے ساتھ احسان کرو اور ان کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (سورۃ الممتحنہ۔۸)
پہلے کفار کو دوست بنانے سے روکا گیا اور اس کی وجہ بھی بتادی گئی کہ انھوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور بے قصور مسلمانوں کو اپنے وطن اور اپنے گھربار سے نکال دیا، تاہم اس آیت میں ان کفار سے حسن سلوک کی اجازت دی جا رہی ہے،
جنھوں نے مسلمانوں سے نہ جنگ کی اور نہ انھیں جلاوطن کیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک بیوی ’’قُتَیلہ‘‘ نامی تھی، جس کو آپ نے قبل از اسلام طلاق دے دی تھی۔ اس کے بطن سے آپ کی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا تھیں۔ ہجرت کے بعد وہ اپنی بیٹی کے لئے چند تحائف لے کر مدینہ آئی۔ حضرت اسماء نے گھر آنے سے روک دیا اور تحائف قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس واقعہ کا ذکر جب انھوں نے بارگاہ رسالت میں کیا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت اسماء کو اجازت دی کہ وہ اپنی ماں کو گھر میں آنے دیں، اس کے تحائف قبول کریں اور اس کے ساتھ احسان و مروت کا برتاؤ کریں۔
مطلب یہ ہے کہ جب کفار نے تمہارے خلاف جنگ نہیں لڑی اور نہ انھوں نے تمھیں کوئی اذیت پہنچائی ہے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ نیکی اور احسان کا رویہ اختیار کرو۔ اگر تم محارب کافروں کی طرح ان مصالح کافروں کے ساتھ بھی جبر و تشدد کروگے تو یہ عدل و انصاف کے خلاف ہوگا، جب کہ اسلام کسی کے ساتھ کسی حالت میں ظلم کی اجازت نہیں دیتا۔