انصاف ملے گا یہ ہے مجھ کو یقیں لیکن
انصاف رسانی کی تاخیر کو کیا کہئے
انصاف رسانی میں تاخیر
ہندوستان میں انصاف رسانی کے عمل میں تاخیر پر سپریم کورٹ نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اندرون چار ہفتے ایک ایسی پالیسی کی تدوین عمل میں لائے جس کے نتیجہ میں ملک میں فوجداری مقدمات کی سماعت میں تیزی آسکے اور اس کے فیصلے جلد ہوسکیں۔ یہ ایک پرانی کہاوت اور حقیقت ہے کہ انصاف رسانی میں تاخیر در اصل انصاف رسانی سے انکار کے مترادف ہے ۔ ہندوستان کا یہ المیہ ہے کہ یہاں عدلیہ انتہائی موثر ہونے کے باوجود مقدمات کی سماعت میں برسوں کا وقت گذر جاتا ہے اور جو ملزمین ہوتے ہیں وہ اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بچنے کی راہیں تلاش کرلیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایک درخواست کی سماعت کے دوران اس رائے کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک میں مقدمات کی یکسوئی کی رفتار اطمینان بخش نہیں ہے ۔ در اصل ایک درخواست دائر کرتے ہوئے رکن اسمبلی کے خلاف مقدمات کی سماعت کو تیز رفتار عدالتوں سے رجوع کیا جانا چاہئے تاکہ جلد یکسوئی ممکن ہوسکے لیکن عدالت نے یہ واضح کردیا کہ ارکان اسمبلی کوئی خصوصی موقف نہیں رکھتے کہ ان کے مقدمات کو فاسٹ ٹریک عدالتوں سے رجوع کیا جائے ۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ با اثر افراد کے ساتھ اگر اس طرح کا سلوک کیا جائے تو عام شہری اس سے محروم رہیں گے ۔ ملک میں زندگی کے تقریبا ہر شعبہ میں یہی ہوتا آیا ہے کہ عام شہری ہر طرح کی سہولیات سے محروم ہوجاتے ہیں اور ارکان اسمبلی ہو کہ ارکان پارلیمنٹ یا دوسرے عوامی نمائندے ہر طرح کی مراعات اور سہولتو ں سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ صورتحال ہندوستان میں بہتر حکمرانی اور جمہوریت کیلئے بھی اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کی ہدایت اور رائے کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت کو کوئی ایسی راہ تلاش کرنی ہوگی جس میں انصاف رسانی کے عمل میں تیزی لائی جاسکے اور ملک میں جو لاکھوں مقدمات کئی برسوں سے زیر التوا ہیں ان کی یکسوئی کرتے ہوئے مظلوموں کو انصاف دلایا جاسکے ۔ مظلوموں کو انصاف دلانا اور ظالموں کو ان کے کئے کی سزائیں دلانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت اپنی اس اہم ترین ذمہ داری سے لاپرواہی برتنے کی مرتکب نہیں ہوسکتی ۔
ملک میں اکثر و بیشتر کئی گوشوں کی جانب سے یہ شکایات سامنے آتی ہیں کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مقدمات کئی برسوں سے زیر التوا ہیں ۔ یہ عدلیہ کی کوتاہی نہیں کہی جاسکتی بلکہ یہ ہمارے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کا نتیجہ ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ کے کئی اہم مقدمات بھی ہیں جو کئی برسوں سے زیر التوا ہیں اور یہ مقدمات سماج میں بے چینی اور اختلاف کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ ان مقدمات کی یکسوئی بھی فاسٹ ٹریک عدالتوں کے ذریعہ کی جاسکتی ہے لیکن صرف چنندہ مقدمات کو فاسٹ ٹریک عدالتوں سے رجوع کرنا اس مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا ۔ اس کیلئے بنیادی طور پر پورے نظام میں ہی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو ان خامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سزا سے بچنے کا موقع نہ مل پائے اور انصاف رسانی کے عمل میں کئی برسوں کی جو تاخیر ہو رہی ہے اس کو ختم کرتے ہوئے مظلوموں کو انصاف دلایا جاسکے ۔ اب تک پیش آئے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے حکومت کو ایک ایسی حکمت عملی مرتب کرنی چاہئے جس کے نتیجہ میں نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے میں کامیابی مل سکے ۔ ہم جب تک اپنے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے اس وقت تک نہ مقدمات کی یکسوئی کے عمل کو تیز رفتا رکیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انصاف رسانی کے عمل کو تیز رفتار بنایا جاسکتا ہے ۔ جب تک انصاف رسانی کا عمل تیز نہیں ہوگا اس وقت تک انصاف رسانی کے حقیقی معنوں کی تکمیل بھی نہیں ہوسکتی اور یہ ایسی صورتحال ہے جس کا ازالہ ہونا از حد ضروری کہا جاسکتا ہے ۔
اب جبکہ خود سپریم کورٹ نے انصاف رسانی کے عمل میں ہونے والی تاخیر کو اجاگر کرتے ہوئے حکومت سے خواہش کی ہے کہ سارے نظام میں تبدیلیاں کی جانی چاہئیں تاکہ انصاف رسانی کے عمل کو اور اس کی رفتار کو اطمینان بخش بنایا جاسکے تو حکومت کی ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی ہے ۔ حکومت کو صرف ٹال مٹول سے کام لینے یا محض دکھاوے کے اقدامات کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں اس مسئلہ کا جائزہ لیتے ہوئے اس میں پائی جانے والی خامیوں اور رکاوٹوںکو دور کرنے کیلئے سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر حکومت سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کرتی ہے اور اس عمل میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرتی ہے تو اس سے ملک بھر میں لاکھوں مقدمات کی یکسوئی ہوسکتی ہے اور اس سے جڑے ہوئے لاکھوں افراد کو انصاف دلایا جاسکتا ہے جس سے وہ کئی برسوں سے محروم ہیں ۔ انہیں انصاف دلانا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔