انسان کو امن اور سلامتی کی ضرورت

عالمی یوم سلامتی کے موقع پر آیت اللہ علی خامنہ ای کا خطاب
حیدرآباد ۔ یکم ۔ اکٹوبر : ( پریس نوٹ ) : آج دنیا کو پہلے سے زیادہ انصاف پر مبنی امن کی ضرورت ہے ، دوسرے الفاظ میں انصاف پر مبنی امن ، اسلامی تعلیمات کے ذریعہ کہ اسلام میں عدالت ایک محو رہے ، اس سلسلے میں حکمت عملی تیار کی جاسکتی ہے ۔ جبری اور غیر منصفانہ امن ، بے فیض ہے جب کے عدالت کی بنیاد پر ہی ایک پائیدار امن وجود میں آسکتا ہے ۔ جبری اور غیر منصفانہ امن ایک قوم کے لیے جنگ سے بھی بدتر ہوسکتا ہے ۔ انسان کو امن اور سلامتی کی ضرورت ہے ۔ جو کوئی امن کے لیے خطرہ پیدا کرتا ہے وہ گویا انسانیت کے لیے خطرہ ہے ۔ موجودہ دور میں ، دہشت گردی دنیا کا ایک مشترکہ مسئلہ ہے اور صرف امن سے ہی اس کے خلاف عمل کیا جاسکتا ہے ۔ ایسی صورت حال میں صرف ایک رہنما جو عالمی عزم رکھتا ہو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اور امن قائم کرنے کے لیے خصوصی حکمت عملی کی طرح کام کرسکتا ہے ۔ ایران کی اسلامی انقلاب کے اعلیٰ رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای اپنی تقریر میں اسلامی دنیا کو اپنے حالات پر غور کرنے کے لیے کہا ہے اور ان سے دریافت کیا انہوں نے اپنے اختلافات کو دور کیا اور اس نقطہ نظر پر توجہ مرکوز کی جو انصاف اور سلامتی کی بنیاد پر انسانی وقار کے ساتھ امن اور سلامتی پیدا کرسکتی ہے ؟ آج معصوم افراد بدامنی ، جنگ اور دہشت گردی کے خطرے میں مبتلا ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں خاص طور پر شام ، یمن ، عراق ، فلسطین ، میانمار اور یہاں تک کہ یوروپ میں بھی بڑی تعداد میں شہریوں کو خطرہ ہے ۔ اگر امن اور انصاف کا معاملہ اور دانشمندوں کے درمیان تازہ مباحث کے موضوع کے طور پر لیا جائے اور امن کے برخلاف آنے والے چیلنجوں کو پہچانا جائے اور ان سے نمٹنے کے طریقوں کو جانا جائے تو امن اور انصاف رسانی کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے ۔ گزشتہ اور آج کے دور میں ہم ( ایران ) ہمیشہ دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں ۔ اور ہم ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف سب سے آگے رہیں ہیں ۔ ہماری عوام آج ان بے گناہ لوگوں کے غم میں ماتم کناں ہیں جو کے 22 ستمبر کو دہشت گردانہ کارروائی میں مارے گئے اور کچھ مغربی ریاستیں اپنے دیئے گئیے شرمناک انٹرویوز میں وہ رسانوں کو جو کے ڈالرس کے تحت کام کرتی ہیں یہ وحشیانہ کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہیں ۔ ہم ایران میں سارے دہشت گردانہ کارروائیوں کی ہمیشہ مذمت کرتے ہیں اور مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے ۔ ہم اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ٹھوس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ لیکن کیوں دہشت گرد تنظیموں کے سربراہ بشمول تنظیم کے سرکاری ذمہ دارانہ ادارے ، مغربی ممالک میں فعال ہیں اور مالی امداد جمع کرنے میں سرگرم ہیں ؟ کیا یہ عمل بین الاقوامی قوانین کے خلاف نہیں ہیں ؟ کیوں اسے ممالک جنہوں نے دہشت گرد گروہوں کو مال اور اسلحہ کے ذریعہ امداد کی جیسے داعش ، النصرہ اور القاعدہ ، کیوں ان کے خلاف کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ بلکہ ان کی تشویش بھی ہوتی ہے ؟ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف مضبوط مقابلے کا آغاز کرنے کے لیے مشترکہ طور پر اقوام کے اتحاد کی ضرورت ہے ۔۔