مریض کی اپنی جسمانی چربی سے محصلہ اسٹیم خلیے جلد ہی دماغ کے مہلک کینسر کے علاج میں کارآمد ہوں گے ۔ ایک نئی تحقیق کے بموجب سائنسدانوں نے انسانی جسم کی چربی سے محصلہ اسٹیم خلیے کامیابی سے دماغ کے کینسر کی رسولیوں کے علاج کے لئے استعمال کئے ہیںتاکہ ان کا راست حیاتیاتی علاج کیا جاسکے ۔ چوہوں میں شدید قسم کی دماغی کینسر کی رسولیاں عام ہیں چنانچہ ان پر اس کا تجربہ کیا گیا ۔ ان کی زندگیوں کی مدت میں نمایاں اضافہ ہوا ۔ اس تجربہ سے اس امکان میں اضافہ ہوا کہ یہ ٹیکنالوجی دماغی کینسر گلوبلاس ٹوماس کے مریضوں کے دماغ سے آپریشن کے ذریعہ رسولی علحدہ کرنے کے بعد کینسر کے باقی خلیوں کی دریافت اور ان کو تباہ کرنے استعمال کی جاسکتی ہے
جو دماغ کے ان حصوں میں رہ جائیں جن تک رسائی مشکل ہے ۔ محققین نے کہا کہ گلوبلاس ٹوماس کے خلیے خاص طورپر بے حس ہوتے ہیں ۔ وہ پورے دماغ میں کہیں بھی منتقل ہوسکتے ہیں۔ پوشیدہ ہوسکتے اور نئی رسولیاں تشکیل دے سکتے ہیں۔ رسولی کے علاج کی شرحیں اس کی وجہ سے بہت کم ہیں۔ محققین نے کہا کہ چوہے پر تجربوں کے دوران جس انچائمال اسٹیم خلیے استعمال کئے گئے ۔ ان میں ایک غیرواضح صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کینسر اور دیگر نقصان زدہ خلیوں کی ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ اس کیلئے انھوں نے چربی میں پروان چڑھائے ہوئے خلیے استعمال کئے ۔ انھوں نے ایم ایس سیس کو ترمیم کرکے اس قابل بنایا کہ وہ ہڈی کا مارفوجنیٹک پروٹین 4 ( بی ایم پی 4 ) کا افراز کرسکیں۔ یہ ایک چھوٹا پروٹین ہوتا ہے جو جنینی ترقی پر قابو پانے میں شامل ہوتا ہے ۔ اس میں رسولی کو کچل دینے کی خاصیت بھی ہوتی ہے ۔ محققین نے کہا کہ دریں اثنا جن چوہوں کو بی ایم پی 4 رکھنے والے اسٹیم خلیے دیئے گئے تھے زیادہ مدت تک یعنی اوسطاً 76 دن زندہ رہے ۔ جن چوہوں کا ایسا علاج نہیں کیا گیا تھا وہ صرف 52 دن زندہ رہے ۔
جان ہاپکنس یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن کے صف اول کے محقق الفریڈو کوئنونس نیوچچوسا نے کہا کہ یہ ترمیم شدہ میسینچمیل اسٹیم خلیے ’’ٹرائے کے گھوڑے ‘‘ کی طرح ہیں۔ انھوں نے کامیابی سے اسے رسولی تک حاصل کی جس کا سراغ نہیں لگایا جاسکا تھا اور اس کے بعد تھراپیوٹک مواد خارج کیا جو کینسر کے خلیوں پر حملہ آور ہوا ۔ گلیوبلاسٹوما کے لئے معیاری علاج میں کیموتھراپی ، اشعاع اور آپریشن شامل ہیں۔ لیکن ان تمام کاامتزاج بھی تشخیص کے بعد زیادہ سے زیادہ 18 ماہ زندہ رہے ۔ ایک حیاتیاتی طریقۂ علاج جو اس مقصد کی تکمیل کرتا ہوں جس کی تلاش میں سائنسداں عرصہ سے سرگرداں تھے کیونکہ دیگر علاج کے طریقے اس مقصد کی کی تکمیل سے قاصر تھے ، یقینا ایک نمایاں کارنامہ ہے ۔ محقق کوٹونس نیوچوسا نے خبردار کیا ہے کہ برسوں کے اضافی مطالعہ جات کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی چربی سے محصلہ ایم ایس سی علاج کے طریقوں کا آغاز کیا جاسکتا ہے ۔ یہ تحقیق رسالہ ’’کلینکل کینسر ریسرچ‘‘ میں شائع ہوچکی ہے ۔