انسانی جان امانت ہے

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ
اللہ سبحانہ نے انسانوں کو بے نہایت نعمتوں سے نوازا ہے،خارجی کئی ایک نعمتیں ہیں، جو ساری کائنات میں بکھری پڑی ہیں،ان نعمتوں کو شمار کر نا ناممکن ہے، سائنسی ترقیات کے باوجود یہ کام کسی کے بس کا نہیں،اسی لئے قرآن پاک میں سارے نظام کائنات میں موجود بیش بہا نعمتوں میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے، اس غور و فکر سے کئی ایک عقدے کھلتے ہیں، ساری کائینات میں اللہ سبحا نہ کی جو بے شمار نشانیاں ہیں یقینا وہ تو ایسی دقیق و نازک ہیں کہ ان کی گہرائیوں میں پہنچنا ایک انسان کیلئے کہاں ممکن، تاہم غور وفکر سے حق کی قدرت کے کرشمے دل و دماغ کونورِ حق سے روشن رکھتے ہیں، اور ایک انسان کی منعم حقیقی تک رسائی آسان ہو جا تی ہے، ان نعمتوں میں جتنا تدبر کیا جائے اتنی زیادہ معرفت رب کی راہیں کھلتی ہیں، اور انسان اس معرفت ہی کی بدولت نعمت ایمانی سے سر شار ہو جاتا ہے، اسی طرح داخلی بے نہایت نعمتیں ہر ایک انسان کو میسر ہیں، انسان خود اپنے اندر جھانک کر دیکھ لے اور اندرونی ایک ایک نعمت پر غور و تدبر کرے تو وہ ایک قادر و قیو م ہستی کے وجود کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا، ارشاد باری ہے، وفی انفسکم افلا تبصرون( ۵۱ /۲۱) کیا تم اپنی ذات میں خود نہیں دیکھتے،اس آیت پاک میں انسان کو خود اپنی ذات کے اند ر جھانکنے کی اور غو ر وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، انسان کا جسم اور اس کا سا را وجود،بیرونی، و اندرو نی، سارے اعضاء اسرارِ الہی و حکمت ایزدی کے مظہر ہیں، انسان اگر اپنی ابتداء پر غور کر نا شروع کر دے تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ وہ ایک بے جان اور حقیر قطرہ آب تھا درجہ بدرجہ اس نے وجود کے کئی پیرہن بدلے،تغیرات کی ایک دنیا ہے جو روزانہ نئے جلوے دکھاتی ہے،ان قدرت کی عظیم کرشمہ سازیوں سے انسانی پیکر وجود میں آتا ہے،پھر بچپن، جوانی، اور بڑھاپہ کے منازل طئے کرتے ہوئے خدا کے حضور پہنچتا ہے،انسانی تخلیق کے محیرالعقول ونازک ترین مراحل کی تصویر اور اس کے دنیا میں ظہور سے موت تک کی تفصیل سورہ حج کی آیت پانچ اور سورہ مومنون کی آیات بارہ تا پندرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

پھر اس وجو د میں ظاہری و باطنی جو کمالات قدرت کی طرف سے ودیعت کئے گئے ہیں وہ بھی انعامات کا ایک بیکراں سمندر ہیں، جس میں غور وفکر تو کیا جاسکتا ہے اور نور ایمانی کوجلا بخشی جا سکتی ہے لیکن اس کی تہ تک پہنچنا ممکن نہیں۔ انسان کے اپنے داخلی و خارجی وجود پر غور وفکر کی دعوت دینے سے مقصود یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی بڑائی و کبریائی کو دل و جان سے تسلیم کرے اس کی محبت سے دل کو معمور رکھے اور اپنے عجز و کمزوری کی دریافت کرے اور یہ جانے کہ یہ انسانی جان اللہ کی امانت ہے،اس میں اپنی مرضی سے کسی طرح کی خیانت کا ارتکاب نہ کرے،نہ کسی ایسی غفلت و لا پر واہی شکار ہو کہ جس سے یہ انسانی جان ضائع ہو جائے۔

سائنسی ترقیات اور نئی نئی ایجادات سے انسانوں کو بہت سی سہولتیں میسر آگئی ہیں،ان کا درست و صحیح استعمال جہاں راحت پہنچاتا ہے وہیںاس کے غلط استعمال سے نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، کسی زمانہ میں انسا ن سواری کے بغیر میلوں پیدل سفر کر کے اپنی منزل تک پہنچ جا تا تھا، اس کے علاوہ جانور بھی سواری کیلئے استعمال کئے جا تے تھے، مشینی ایجادات نے آہستہ آہستہ سواری کے جانوروں کی جگہ لے لی، چھوٹی بڑی کئی ایک مشینی سواریاں رائج ہو گئیں، جیسے جیسے ان سواریوں کی شکلیں بدلنے لگی اور ایک سے ایک تیز رفتار سواریاں بازار میں دستیاب ہو نے لگیں،جس سے مسافت کی دوری قرب میں تبدیل ہوگی ۔ انسان اس سے فائدہ اٹھا تے ہو ئے بڑی ہی کم مدت میں اپنی منزل تک پہنچنے لگے، اور اب اس کے نا روا استعمال سے کئی ایک انسان بالخصوص نو جوان طبقہ جان سے ہا تھ دھو رہا ہے،خاص طور پر موٹر سائیکل کی وجہ سے سڑک حادثات میں روز بروز اضافہ ہے، اخباری اطلاع کے مطابق جنوری ۲۰۱۴ تا مارچ ختم تک صرف تین ماہ میں جڑواں شہر حیدرآباد و سکندر آبا د میں تقریبا دو سو اٹھارہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے،ان مرنے والوں میں نصف تعداد نو جوان بچوں کی ہے جن کی عمریں سترہ سے ستائس کے درمیان ہیں،سڑک حادثے میں موت کی وجہ سواریوں کو تیز رفتاری کے ساتھ دوڑانا ہے، ۲۰۱۳؁ میں اخباری رپورٹ کے مطابق ۲۳۳۸ حادثات رو نما ہوئے،اور ان حادثات میں تقریبا ۴۲۶ افراد ہلاک ہو گئے ۲۰۱۲؁ میں ۲۵۷۶ سڑک حادثات ہو ئے اور جس میں ۴۳۲ انسانی جانیں ضائع ہوئیں، ۲۰۱۱؁ میں یہ حادثات ۲۶۵۱ رہے اور ۴۲۸ افراد ہلاک ہو گئے،۲۰۱۰؁ میں ۲۷۹۷ حادثات ہوئے اور اس میں مر نے والوں کی تعداد ۷۴۳ تھی،یہ اعداد شمار صرف حیدرآباد میں ہو ئے ٹرافک حادثات کے ہیں، ان حادثات کے اسباب میں سے ایک سبب مالی فراوانی بھی ہے،

مسلمانوں کی نو جوان نسل دیگر اقوام کے مقابلے میں تعلیم میں تو بہت پیچھے ہے، لیکن ماں باپ کے بیجالاڈو پیار کی وجہ غیر سماجی کارگزاریوں میں پڑی ہوئی ہے، ماں باپ کم عمر بچوں کو تیز رفتار سواریاں فراہم کر دیتے ہے اور بچے ان کا غلط استعمال کر تے ہوئے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں، عام شاہراہوں پر نوجوان کسی حادثہ کی پرواہ کئے بغیر تیز رفتاری کا مظاہرہ کر تے ہیں، بسا اوقات دوستوں کے درمیان مقابلہ آرائی شروع ہو جاتی ہے، ۲۰۱۱ ؁ء کے اواخر میں حیدرآباد کے ایک نامور گھرانے سے تعلق رکھنے والے دو نو جوان اسی تیز رفتاری کی وجہ موت کے منہ میں چلے گئے ماں باپ اس صدمے سے ابھی باہر نہیں نکل سکے،کئی دنوں تک اخبارات میں اس حادثہ جانکاہ خبریں شائع ہو تی رہیں،ماں باپ کو ان واقعات سے سبق حاصل کر نا چاہئے، اپنی سچی محبت کے اظہار کیلئے اپنی اولاد کو عمدہ تعلیم و تربیت سے سنوارنا چاہیئے،سب سے قیمتی تحفہ حسن ادب کا ہے، اولاد کو زیور علم سے آراستہ کیا جائے اور ان کی عمدہ دینی تربیت کی جا ئے اللہ کا خو ف اور خوف آخرت ان کے دل میں بٹھایا جائے، اس وقت انسانی معاشرہ اسی بے خوفی کی وجہ تباہی وبربادی کے دہانے پر ہے، خاص طور پر نوجوانوں کی اسلامی طرز پر تربیت،مقصد زندگی کی معرفت،آخرت کا خوف،اللہ سبحانہ کے حضور جوابدہی کے تصور کا ہر آن استحضار جیسے امورہی ان کی فکری اٹھان کے ضامن ہیں،نئی نسل کی حفاظت اور ان کی صحیح ڈھنگ سے تر بیت میں قوموں کی ترقی کا راز مضمر ہے۔

الغرض اسلام کا ایک عملی پیکر ان کو بنا دیا جائے یہ ایسا عظیم اور گرانقدر تحفہ ہے کہ کوئی اور مادی تحفہ اس کی جگہ نہیں لے سکتا ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے ولا تقتلوا انفسکم ( ۴/۲۹) جس کے معنی یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو قتل مت کرو،خود کشی کرنا یا کسی انسان کو بلا وجہ قتل کرنا اس سے مراد ہے، غفلت و لا پرواہی اور بے اعتدالی کے ساتھ گاڑی چلانے کی وجہ موت کا شکار ہو جا نابھی اپنے آپ کو قتل کر نے کے برابر ہے،
ارشاد باری ہے ۔ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ۔(۲؍۱۹۵) اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو، اللہ سبحانہ وتعالی کے ہر حکم کو پس ِپشت ڈال دینا بھی اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، انسانی جان بھی اللہ کی امانت ہے اس کو ضائع کرنے سے بچانا انسان پر فرض ہے، حتی المقدور کوشش یہی ہو کہ انسانی جان کو کوئی گزند نہ پہنچے نہ اپنے آپ سے نہ اپنے کسی بھائی سے ۔ ٹرافک قواعد کی رعایت کئے بغیر سڑکوں پر سواریوں کو تیز دوڑانا گو یا اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاک کرنا ہے ۔

انسانی جان تو اللہ کی امانت ہے اس کی قدر کر تے ہوئے اللہ سبحانہ کے احکامات کے مطابق زندگی گزار کر اس امانت کا حق ادا کیا جائے، بیشک اللہ تعالی نے انسانوں کی جان اور ان کے مال کو جنت کے عوض خرید لیاہے ۔( ۹/۱۱۱) زندگی کی قدر پہچان کر اپنی جان کو اللہ کی مرضیات کیلئے وقف کردینا چاہئے کہ جس کے عوض اللہ تعالی جنت عطا فرمائیں گے، یہ محض اس کے فضل و کرم کی بات ہے،ہم کو ہر حال میں اپنی جان کی حفاظت کرنا ہے، سواریو ں کا غلط استعمال کر کے اپنی جان کو جو کھم میں ڈالنا اپنی جان کی ناقدری ہے، زندگی بہت بڑی نعمت ہے، اس کی قدر کی جائے تو مقصد زندگی کی تکمیل ہو سکتی ہے، اور اسکے صلہ میں ابدی راحت نصیب ہو سکتی ہے ۔