اندھیروں میں روشنی بکھیرنے والے طغرے ، محمد علی الدین امتیاز کا کارنامہ

اندھیروں میں روشنی بکھیرنے والے طغرے ، محمد علی الدین امتیاز کا کارنامہ
رائل اسلامک کیلی گرافی آرٹ سے ای بزنس کمپنی اسناپ ڈیل بھی متاثر ، حیدرآبادی آرٹسٹ کی تخلیقی صلاحیتوں پر جناب زاہد علی خاں کا اظہار مسرت
حیدرآباد ۔ 28 ۔ نومبر : ( نمائندہ خصوصی ) : تخلیقی صلاحیتیں ہر انسان میں بدرجہ اتم موجود رہتی ہیں ۔ لیکن بہت کم لوگ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے باوجود شہرت و دولت کے حصول کی تمنا نہیں رکھتے ۔ انہیں تو بس اپنے فن کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی فکر لاحق رہتی ہے ۔ ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں ایسے فنان بھی ہیں جو اپنے فن کو دین سے جوڑتے ہوئے نیکی کے حصول کے خواہاں رہتے ہیں اس طرح دین سے جڑ جانے کے بعد ان کا فن صرف فن ہی نہیں رہتا بلکہ پاکیزہ فن بن جاتا ہے ۔ قارئین ہمارے شہر کے ایک ایسے ہی فنان جناب محمد علی الدین امتیاز ہیں جن کا کام اندھیروں میں روشنی پیدا کرنا ہے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان صاحب کا محکمہ بجلی سے تعلق ہوگا یا بلبس و ٹیوب لائٹس اور فیان ، سائن بورڈس کے حروف تیار کرنے والی کسی کمپنی سے ہوگا ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ شہر کے تاریخی محلہ کوٹلہ عالیجاہ کے رہنے والے جناب محمد علی الدین امتیاز خطاطی کے نمونوں کو ایک نئی روشنی عطا کرنے والے آرٹسٹ ہیں ۔ انہوں نے ایک ایسی ٹکنیک ایجاد کی ہے جس کے ذریعہ طغروں میں غیر معمولی چمک پیدا ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حرفوں میں برقی رو دوڑتے ہوئے ان میں روشنی پیدا کردی ہو ۔ انہوں نے اپنے اس فن کو رائل اسلامک کیلی گرافی آرٹ کا نام دیا ہے ۔ انہوں نے اس ٹیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اب تک بے شمار طغرے بنائے ہیں جو بجلی بند ہوتے ہی چمک اٹھتے ہیں ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کے تیار کردہ طغرے ای ۔ بزنس کی کمپنی اسناپ ڈیل آن لائن فروخت کررہی ہے ۔ جناب محمد علی الدین امتیاز نے راقم الحروف کو بتایا کہ دراصل ان کے والد ایوارڈس تمغے تیار کرتے ہوئے اس پر کندہ کاری کرتے تھے اور دھاتی پرتوں بشمول سونے ، چاندی کے میڈلس اور شیلڈس کپس اور مومنٹوز پر کندہ کاری کے پیشے سے اب ان کے خاندان کی چوتھی نسل وابستہ ہے ۔ ایک دور میں ان کے والد محمد علاء الدین صابر صاحب مرحوم کی دھاتی پرتوں میں کندہ کاری کے پیشے میں طوطی بولتی تھی ۔ فوج ، پولیس اور سی آئی ٹی ڈی کے علاوہ کئی تعلیمی تہذیبی و ثقافتی اداروں کے ایوارڈس مومنٹوز ، لوح ، توصیف ناموں ، تمغوں اور بیاچس پر کندہ کاری کا کام انہیں ہی دیا جاتاتھا ۔ ایک سوال کے جواب میں محمد علی امتیاز نے بتایا کہ انہوں نے چار سال کی عمر سے ہی یہ فن سیکھنا شروع کردیا تھا ۔ بچپن میں ریڈیم کے اعداد چسپاں کی ہوئی گھڑی کی چمک کو دیکھ کر ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ وہ ایسا طریقہ ایجاد کریں جس سے آیات قرآنی ، کلمہ طیبہ ، درود شریف ، احادیث ، اسمائے حسنیٰ ، اقوال زرین پر مبنی طغروں میں ایسی چمک پیدا ہو جس سے اندھیرے میں بھی روشنی کا احساس ہونے لگے چنانچہ انہوں نے اپنے اس پراجکٹ پر محنت شروع کی جس کے نتیجہ میں انہیں طغروں پر جو حروف ابھرتے ہیں ان پر اعلیٰ معیاری ریڈیم استعمال کرنے کا خیال آتا ۔ ساتھ ہی بڑی ہی مہارت سے تیار کردہ حروف پر ایک مخصوص کیمیائی مادہ کی کوٹنگ کا نیا انداز بھی انہوں نے متعارف کرایا ۔ اس سے طغروں کے حروفوں پر 3D ایفکٹ پیدا ہوگیا ۔ اگر لائٹ بند کردی جائے تو یہ طغرے تقریبا 6 گھنٹے تک روشنی بکھیرتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کمرہ یا ہال میں صفر بتی کا بلب روشن ہوگیا ہو ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے طغروں کا کمال یہ ہے کہ دکانات و مکانات اور شوروم میں جب بجلی نہیں ہوتی وہ خود بخود روشنی پیدا کرتے ہیں۔ اس سوال پر کہ وہ صرف طغرے ہی کیوں تیار کرتے ہیں ۔ جناب محمد علی الدین امتیاز نے بتایا کہ یہ ایک طرح سے اسلامک آرٹ ، اسلامی خطاطی کی خدمت ہے اور ان کی نظر میں یہ ایک بابرکت پیشہ ہے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس قسم کے روشنی بکھیرنے والے طغرے عالمی مارکٹ میں پہلی مرتبہ متعارف کئے گئے ہیں ۔ تب ہی تو اسناپ ڈیل جیسی ای بزنس کمپنی اسے فروخت کررہی ہے ۔ اسناپ ڈیل پر طغرہ لکھ کر کلک کرنے پر آپ کو مختلف نمونے دیکھنے کا موقع ملے گا ۔ حیدرآباد کے اس غیر معمولی آرٹسٹ کے مطابق روزنامہ سیاست فن خطاطی کے فروغ میں غیر معمولی رول ادا کررہا ہے اور ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں نے ان کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے اور انہوں نے جناب امتیاز صاحب کے فن کے نمونوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے مسرت کا اظہار کیا ہے ۔ بہرحال امید ہے کہ حیدرآباد کے اس باصلاحیت آرٹسٹ کی نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر پذیرائی کی جائے گی ۔ جناب محمد علی الدین امتیاز سے فون نمبر 9177841323 پر ربط کیا جاسکتا ہے ۔۔