انحراف کی سیاست

وہ ستم ڈھائے گی اک دن یہ سیاست آپکی
چھین کر لوگوں کے منہ سے روٹیاں لیجائیگی
انحراف کی سیاست
سیاست دانوں کی موقع پرستیاں عام بات ہیں۔سماج کا ہر طبقہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ سیاست داں کتنے موقع پرست ہوتے ہیں اور کس طرح سے ملک و ریاست کے قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے فائدے کو ترجیح دیتے ہیں۔ملک کی شائد ہی کوئی ریاست ایسی رہی ہوگی جہاں سیاست دانوں نے موقع پرستی کا مظاہرہ نہیں کیا ہو ۔ سیاست میں اس طرح کی روایت عام بات ہو کر رہ گئی ہے ۔ اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بھی سیاست دان موقع سے فائدہ اٹھانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے ۔ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہو رہی ہے اور انہیںاس کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی مل رہا ہے ۔ تلنگانہ میں اپوزیشن کے وجود کو ختم کرنے کیلئے حکومت نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ تلنگانہ میں تلگودیشم پارٹی کا وجود تقریبا ختم ہونے کے قریب پہونچ گیا ہے ۔ یہاں برسر اقتدار تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی جانب سے تلگودیشم کے ارکان اسمبلی کو اپنی صفوں میں شامل کرتے ہوئے انہیںانعامات سے بھی نوازا گیا ۔ بعض کو وزارتیں دی گئیں۔ تلنگانہ میں تلگودیشم پارٹی کے 15 ارکان اسمبلی عوامی رائے سے منتخب ہوئے تھے ۔ ان ارکان نے عوام کی رائے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی ۔ انہوں نے اس بات کا خیال بھی نہیں کیا کہ عوام نے انہیں ٹی آر ایس کے خلاف ووٹ دے کر منتخب کیا ہے ۔ اسی طرح برسر اقتدار جماعت نے بھی انہیں اپنی صفوں میں شامل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی ۔ تلنگانہ میں اس عمل کا شکار ہوکر تلگودیشم نے ٹی ٓر ایس پر زبردست تنقیدیں کی تھیں۔ اب آندھرا پردیش میں تلگودیشم پارٹی اسی روایت پر عمل شروع کرچکی ہے اور وہ دوسری جماعتوں میں انحراف کی راست یا بالواسطہ طور پر حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ اسی عمل کے حصے کے طور پر وائی ایس آر کانگریس کے چار ارکان اسمبلی اور ایک ایم ایل سی کو تلگودیشم کی صفوں میںشامل کرلیا گیا ہے ۔ جو ارکان اسمبلی برسر اقتدار جماعتوں کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں ان کا کہنا حسب روایت یہی ہے کہ وہ اپنے حلقوں کی اور اپنے حلقوں کے عوام کی ترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسا کر رہے ہیں۔ یہ عذر قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔
اپنے حلقہ کے عوام کی خدمت کرنے کیلئے برسر اقتدار جماعت کا حصہ رہنا ہی ضروری نہیں ہے ۔ اپوزیشن کی صفوں میں رہتے ہوئے بھی تعمیری رول ادا کیا جاسکتا ہے اور اپنے حلقہ کے عوام کی خدمت کی جاسکتی ہے ۔ یہ بہانہ بازیاں صرف اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ‘ عہدوں کے لالچ یا کسی اور مقصد سے کی جاتی ہیں اور عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تلنگانہ میں جس طرح سے تلگودیشم پارٹی کا عملا صفایا ہوگیا اس کی کسر آندھرا پردیش میںپوری کی جا رہی ہے ۔ جو عمل تلنگانہ میں قابل قبول نہیں ہے وہ آندھرا پردیش میں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ اس عمل کے ذریعہ سیاسی جماعتیں اپنا سیاسی موقف تو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں لیکن وہ اقدار اور اصولوں سے منحرف ہوجاتی ہیں اور یہی بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ اقتدار کیلئے جہاں سیاسی جماعتیں کسی بھی حد تک گرنے کو تیار ہیں وہیں ارکان اسمبلی اور دوسرے قائدین بھی اقتدار کے مزے لوٹنے کیلئے تمام اصولوں اور روایات و اقدار کو پامال کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ یہ عملا جمہوری عمل کی نفی ہے اور اس سے جمہوریت کی بنیادوں کو نقصان ہوتا ہے ۔ ہندوستان بھر میں ایسے انحراف کا سلسلہ چل رہا ہے اور ہر جماعت اور ہر ریاست اس پر عمل کر رہی ہے ۔ کسی ایک جماعت کو اس کیلئے ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس کیلئے کسی ایک لیڈر کو یا کسی ایک ریاست کو بھی ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ یہ ایک اجتماعی خرابی پیدا ہوئی ہے اور اس کا ازالہ بھی اجتماعی کوششوں سے اور سنجیدہ کوششوں سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔
انحراف کی سیاست وقتی طور پر تو کسی کیلئے بھی فائدہ مند ہوسکتی ہے اور اس سے اقتدار کے مزے بھی لوٹے جاسکتے ہیں لیکن اس سے ملک کے جمہوری ڈھانچہ کو اور جمہوری عمل کو جو نقصان ہو رہا ہے وہ ناقابل تلافی ہے اور اس پر کسی بھی جماعت کی توجہ نہیں ہے ۔ جو جماعت انحراف کی کبھی حوصلہ افزائی کرتی ہے وہ خود بھی کبھی اس کا شکار ہوجاتی ہے ۔ جب حوصلہ افزائی کرتی ہے تو اس کا موقف الگ ہوتا ہے اور جب وہ خود اس کا شکار ہوجاتی ہے تو اس کا موقف بھی بدل جاتا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو ہمارے ملک کے عوام کیلئے باعث فکر ہے ۔ رائے دہندوں کو اور عوام کو بھی ایسے قائدین میں فرق محسوس کرنے کی ضرورت ہے جو صرف موقع پرستی کی سیاست کرتے ہیں اور عوام کی بہتری کی انہیں کوئی فکر نہیںہوتی اور نہ وہ عوامی رائے کا کوئی احترام کرتے ہیں۔ رائے دہندے اگر ایسے شعور کا مظاہرہ کریں تو سیاسی قائدین کی مفاد پرستیوں پر لگام کسی جاسکتی ہے ۔