روزِ حساب ہوچکا اب اسکا تجزیہ تو کر
راہوں میں کیوں ہیں مشکلیں اسکی وجہ تو جان لے
انتخابی نتائج ‘ بی جے پی کی مشکلات
تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ملک میں ایک طرح سے سیاسی منظر نامہ تبدیل کردیا ہے ۔ان نتائج سے ملک بھر میں جو سیاسی غلبہ والی کیفیت پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہوتی نظر آر ہی ہے اور سیاسی گھٹن کا ماحول بھی تبدیل ہونے لگا ہے ۔ ایک ہی سوچ و فکر کو مسلط کرنے والے گوشے اب قدرے خاموش نظر آ رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ گوشے آئندہ کی حکمت عملی تیار کرنے اور عوام کے ذہنوں کو از سر نو پراگندہ کرنے اور زہر آلود فضا پیدا کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ چھتیس گڑھ ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کانگریس کی کامیابیوں اور وہاں اقتدار پر واپسی نے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے ۔ کئی گوشوں نے یہ اپنے طور پر یہ طئے کرلیا تھا کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ایک بار پھر کانگریس پارٹی کو محرومی کا سامنا کرنا پڑیگا اور بی جے پی ‘ نریندر مودی کی قیادت میں دوبارہ اقتدار حاصل کرے گی ۔ اب سیاسی حلقوں میں اس کے علاوہ بھی ایک سوچ ابھرنے لگی ہے ۔ یہ جو طئے کرلیا گیا تھا کہ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کو شکست دینا تقریبا نا ممکن ہوگیا ہے یہ مفروضہ اب بے کار ثابت ہوگیا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی مفروضہ پال لیا گیا تھا کہ ہندی پٹی کی ریاستوںمیں تو خاص طور پر بی جے پی کے غلبہ کو بے اثر کرنا کوئی آسان نہیں ہوگا لیکن ان ریاستوں کے عوام نے ایک ہی جھٹکے میں تین ریاستوں میں بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کردیا اور انہوں نے کانگریس کو ایک بار پھر اقتدار سونپ دیا ہے ۔ اس طرح یہ مفروضہ بھی بے اثر ہوگیا کہ ہندی ریاستوں میں بی جے پی کو شکست نہیں دی جاسکتی ۔ کانگریس نے ان نتائج کے ساتھ دو مفروضوں کو ناکام بنادیا ہے ۔ اس طرح ملک میں ایک نئی سوچ کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے ۔ اب یہ سوچ ابھر رہی ہے کہ بی جے پی کو اقتدار سے محروم کیا جاسکتا ہے ۔ امیت شاہ ۔ مودی کی جوڑی بھی ناقابل شکست نہیں ہے ۔ ہندی بولنے والی ریاستوں میں بھی کانگریس شاندار واپسی کرسکتی ہے ۔ کانگریس مکت بھارت کا بی جے پی کا نعرہ عوام قبول کرنے کو تیار نہیں ہیںبھلے ہی بی جے پی اس پر کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لے ۔
اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ بی جے پی اب تک جس خواب و خیال میں تھی کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی بھی اس کیلئے کوئی مشکل نہیںہوگی لیکن تین ریاستوں کے نتائج نے اس کیلئے پہلے سے موجودہ مشکلات کو اور بھی مشکل کردیا ہے ۔ سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ملک کے عوام اور سیاسی حلقوں کی سوچ میں تبدیلی ہے ۔ یہ تبدیلی یہی ہے کہ بی جے پی ‘ نریندر مودی یا امیت شاہ ناقابل شکست نہیں ہیں۔ ا سکے علاوہ ایک اور اہمیت کی بات یہ بھی ہے کہ فرقہ پرستی ‘ صرف بلند بانگ دعووں اور عوام کو گمراہ کرنے کی سیاست ہمیشہ کامیاب قرار نہیں دی جاسکتی ۔ لوگ یقینی طور پر فرقہ پرستانہ سیاست سے متاثر ضرور ہوتے ہیں اور کچھ وقت کیلئے اہمیت کے حامل پس منظر میں چلے جاتے ہیں لیکن یہی ایک نسخہ حکومت کی ہر ناکامی کیلئے کارگر ثابت نہیں ہوسکتا ۔ حکومت صرف جذباتی استحصال کے ذریعہ نہیں چلائی جاسکتی ۔ حکومت اکثریت کی سیاست پر کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ اقتدار کے نشہ میں عوام کو ہمیشہ اپنی لاٹھی سے ہانکا نہیںجاسکتا ۔ عوام پر اثر انداز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کے قائدین ہمیشہ انتخابی موڈ میں نہ ہوں بلکہ وہ عوام کی خدمت کیلئے بھی وقت نکالیں۔ محض چٹکلے بازی یا پھر اپوزیشن کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے عوام کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا ۔
بی جے پی کیلئے صرف تین ریاستوں کے نتائج سے جو مشکلات پیدا ہوئی ہیں ان کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی یا نریندر مودی کا ہر نعرہ عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہے ۔ عوام ترقی چاہتے ہیں۔ حکومت سے کام چاہتے ہیں۔ مسائل کی یکسوئی چاہتے ہیں۔ کسی ایک طبقہ کو ہذیانی کیفیت کے ذریعہ مطمئن کیا جاسکتا ہے لیکن سارے ملک کے عوام حکومت کے جھانسہ میں نہیں آسکتے ۔ تین ریاستوں کے نتائج بی جے پی کیلئے نوشتہ دیوار ہیں اور اگر وہ اس کو پڑھنے میں کامیاب نہیں ہوتی ہے تو کوئی عجب نہیں کہ بی جے پی کو ایک پرجوش کانگریس اور متحد اپوزیشن کے ہاتھوں 2019 میں اقتدار سے محروم ہونا پڑے ۔