انتخابی مہم کا آخری مرحلہ، قائدین کی اداکاری وریا کاری سے حصول ہمدردی کی کوشش

لڑکھڑانے اور گرپڑکر نئی نسل کو روشناس کروانے کا حربہ، مذہبی جذبات کا استحصال ممکن، عوام جھانسہ کا شکار نہیں ہوں گے

حیدرآباد۔/27اپریل۔ شہر حیدرآباد میں انتخابی مہم کا اختتام ہمارے لئے دلچسپی کا باعث ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات بہترین وقت گزاری کا ذریعہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ دونوں شہروں میں انتخابی مہم اب جبکہ ختم ہونے کے قریب ہے، ایسے میں عوام انتخابی مہم کے آخری مراحل کے متعلق پیشن گوئیاں شروع کرچکے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کی حرکات سکنات پر تبصرے کئے جانے لگے ہیں۔ سیاسی حالات میں آرہی تیز تر تبدیلی کو دیکھتے ہوئے عوام کا یہ کہنا ہے کہ اب سیاسی قائدین مختلف طریقوں سے عوام کو راغب کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں بلکہ اپنے جلسہ ہائے عام کے ذریعہ عوام میں یہ تاثر دینے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں کہ اگر وہ نہیں رہے تو عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ عوام کا کہنا ہے کہ انتخابی مہم کے اختتام پر منعقد ہونے والے جلسوں میں اس مرتبہ نہ صرف ووٹ کی بھیک کیلئے دامن پھیلائے جائیں گے بلکہ شرفائے شہر پر بہتان تراشی کی انتہا کے ساتھ ساتھ اپنی بے بسی و لاچاری کا اس طرح اظہار کیا جائے گا کہ اگر انہیں عوام کی تائید حاصل نہیں ہوئی تو نہ صرف وہ بلکہ عوام بھی تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ اتنا ہی نہیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بعض قائدین تو اپنی شعلہ بیانی و اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے شہ نشین پر لڑکھڑانے اور گر پڑنے کے متعلق بھی منصوبہ تیار کررہے ہیں تاکہ ان کی اس حالت پر رحم کھاتے ہوئے انہیں ووٹ دیں۔ ایسی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ اس اداکاری کے علاوہ بعض قائدین سیاسی میدان میں اپنی آئندہ نسل کو روشناس کروانے کیلئے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جو حالات موجودہ انتخابی میدان کے بنے ہوئے ہیں ان حالات میں تمام حلقہ جات اسمبلی و پارلیمان کے کارکنوں و قائدین میں انتخابی مہم کے یہ آخری لمحات بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ ان آخری لمحات کے ذریعہ انتخابی میدان کا حصہ امیدوار اپنی بے بسی اور بے کسی کے اظہار کے ساتھ ساتھ مذہبی اشتعال اور واسطے، وسیلے کے ذریعہ رائے دہندوں کے جذبات سے کھلواڑ بھی کریں گے۔ اتنا ہی نہیں اس ڈگر پر چلنے میں دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے امیدوار بھی پیچھے نہیں ہیں بلکہ وہ بھی گائے کے تحفظ کیلئے ووٹ کی بھیک مانگنے لگے ہیں اور آخری لمحات میں یہ بھی اس جذباتی مسئلہ کا استحصال کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ عوام اب ان حالات سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں اور یہ کہنے لگے ہیں کہ یہ اداکاریاں اور ریا کاریاں واضح ہوچکی ہیں، ان حرکات و سکنات کا اب رائے دہندوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ اس کے مثبت اثرات کے بجائے منفی اثرات پڑنے کے قوی امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔ چونکہ عوامی شعور اس حد تک بیدار ہوچکا ہے کہ وہ باآسانی یہ کہنے لگے ہیں کہ کب کس کے پیٹ میں درد ہورہا ہے اور کس وقت کون بے ہوش ہوسکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں اب عوام کو اس بات کا بھی اندازہ ہوچلا ہے کہ واسطے، وسیلے کی ضرورت اور رائے دہندوں کی اہمیت انتخابی مہم کے اختتام پر جتنی ہوتی ہے یہ آئندہ پانچ برسوں میں ان کی وہ اہمیت برقرار نہیں رہتی بلکہ ان کی اہمیت بھی اتنی ہی رہ جاتی ہے جتنی ایک یوم کے لئے مزدور کو اہمیت دیتے ہوئے اس سے مزدوری کروائی جاتی ہے۔