!انتخابی ضابطہ اخلاق کے سبب افطار دعوتوں کو خطرہ

چیف منسٹر اور گورنر کی دعوت ممکن نہیں،سیاسی جماعتوں کو مشکلات کا سامنا
حیدرآباد ۔ 13۔ مئی (سیاست نیوز) ریاست میں لوک سبھا اور مجالس مقامی کے انتخابات کے سلسلہ میں 27 مئی تک انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ تھا لیکن کونسل کی تین نشستوں کے انتخابی اعلامیہ کی اجرائی کے بعد ضابطہ اخلاق 7 جون تک نافذ رہے گا ۔ گزشتہ دو ماہ سے تلنگانہ میں کسی نہ کسی الیکشن کے سلسلہ میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہے جس کے سبب حکومت کی تمام تر سرگرمیاں ٹھپ ہوچکی ہے۔ سرکاری اسکیمات پر عمل آوری بھی بری طرح متاثر ہوئی ۔ عہدیدار کسی بھی مسئلہ کی یکسوئی میں انتخابی ضابطہ اخلاق کو رکاوٹ قرار دے رہے ہیں۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے اداروں میں انتخابی ضابطہ اخلاق کے سبب اسکیمات پر عمل آوری ٹھپ ہوچکی ہے۔ ماہِ رمضان المبارک میں تاریخی مکہ مسجد میں ہر جمعہ کو یوم القرآن کے انعقاد کی اجازت دی جاتی تھی ، چونکہ یہ اجازت سیاسی جماعتوں کو دی جاتی رہی، لہذا اس مرتبہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے نتیجہ میں کسی بھی پارٹی کو یوم القرآن کی اجازت نہیں دی گئی ۔ توقع کی جارہی تھی کہ 27 مئی کو ختم ہونے والے ضابطہ اخلاق کے بعد جمعۃ الوداع کی اجازت دی جائے گی لیکن موجودہ صورتحال میں یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ مجالس مقامی کی کونسل کی تین نشستوں کیلئے 31 مئی کو رائے دہی مقرر ہے، لہذا انتخابی ضابطہ اخلاق 7 جون تک برقرار رہے گا۔ ایسے میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی روایتی دعوت افطار کو خطرہ دکھائی دے رہا ہے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کے دوران سیاسی قائدین کوئی سرکاری پروگرام میں شرکت نہیں کرسکتے ۔ ایسے میں چیف منسٹر کی دعوت افطار کا اہتمام ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ رویت ہلال کے مطابق 5 جون کو عیدالفطر کا امکان ہے جبکہ ضابطہ اخلاق 7 جون تک برقرار رہے گا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ضابطہ اخلاق کے نفاذ کی صورت میں دعوت افطار کا اہتمام اس لئے بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ اس دعوت کے میزبان خود چیف منسٹر ہیں۔ ہر سال گورنر اور کمشنر پولیس کی جانب سے بھی دعوت افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کے سبب گورنر کی دعوت افطار کے بارے میں ابھی تک سرکاری سطح پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ۔ گورنر کا عہدہ سیاسی ہے یا غیر سیاسی اس پر سرکاری حلقوں میں بحث جاری ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گورنر اور چیف منسٹر دونوں کی دعوت افطار انتخابی ضابطہ اخلاق کی نذر ہوسکتی ہے جبکہ کمشنر پولیس دعوت افطار کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوںکی جانب سے دعوت افطار کے اہتمام کے سلسلہ میں بتایا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن سے کی اجازت حاصل کرنی پڑے گی۔ دوسری طرف رمضان المبارک میں حکومت کی جانب سے مساجد میں دعوت افطار اور غریبوں میں رمضان گفٹ پیاکٹس کی تقسیم کے موقع پر ارکان اسمبلی شرکت نہیں کرپائیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ متعلقہ ضلع کلکٹرس کی نگرانی میں یہ کام انجام دیا جائے گا۔ ریاست کی 832 مساجد میں دعوت افطار اور رمضان گفٹ پیاکٹس کی تقسیم کا منصوبہ ہے ۔ الغرض انتخابی ضابطہ اخلاق میں برسر اقتدار پارٹی کے کئی منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ افطار کی دعوتوں میں کمی سے وہ افراد پریشان ہوسکتے ہیں جو ہر دعوت میں شرکت کو اپنے لئے اعزاز تصور کرتے ہیں۔ ویسے بھی مسجد یکخانہ عنبرپیٹ کی شہادت کے خلاف مسلمانوں میں مہم جاری ہے کہ سرکاری اور سیاسی دعوت افطار کا بائیکاٹ کیا جائے۔ یہ مہم دن بہ دن شدت اختیار کر رہی ہے۔