تلگو دیشم ۔ بی جے پی اتحاد ، کانگریس اور ٹی آر ایس نے وعدے فراموش کردئیے
حیدرآباد۔/8اپریل، ( سیاست نیوز) تلگودیشم پارٹی کے بی جے پی سے اتحاد اور کانگریس و ٹی آر ایس کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم میں اقلیتوں کو مناسب نمائندگی نہ دیئے جانے پر اقلیتوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ تلگودیشم پارٹی جس نے 2004انتخابات میں شکست کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ دوبارہ بی جے پی سے انتخابی مفاہمت نہیں کرے گی، لیکن اچانک اس نے بی جے پی کے ساتھ دوبارہ دوستی کرلی۔ پارٹی سے تعلق رکھنے والے اقلیتی قائدین کے علاوہ تلگودیشم کی تائید کرنے والے اقلیتی اور سیکولر رائے دہندے بھی اس فیصلہ کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں۔ پارٹی صدر چندرا بابو نائیڈو نے اقلیتوں کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے بارہا یہ اعلان کیا تھا کہ آئندہ کبھی بھی بی جے پی کے ساتھ انتخابی مفاہمت نہیں کریں گے لیکن وہ حقیر سے سیاسی مفادات کیلئے اپنے وعدہ سے منحرف ہوگئے۔ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں واقع 24اسمبلی حلقوں میں اقلیتی رائے دہندے قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں اور سابق میں کئی حلقوں سے تلگودیشم امیدواروں کو کامیابی سے ہمکنار کیا گیا۔ اس کے باوجود تلگودیشم کے بی جے پی سے اتحاد پر اقلیتوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ انتخابی مفاہمت کے بعد اقلیتوں کی قابل لحاظ آبادی والے اسمبلی حلقے بی جے پی کو الاٹ کردیئے گئے جہاں تلگودیشم تنہا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ شہر سے تعلق رکھنے والے قائدین اور کارکنوں نے بی جے پی سے مفاہمت کی مخالفت کرتے ہوئے چندرا بابو نائیڈو کو اپنے موقف سے آگاہ کیا تھا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ انتخابی مفاہمت تلنگانہ میں تلگودیشم کیلئے نقصاندہ ثابت ہوگی اور مفاہمت پارٹی کیلئے خودکشی کے مترادف ہے۔ تلگودیشم سے وابستہ کئی قائدین اور کارکنوں نے اس احساس کا اظہار کیا کہ وہ انتخابات میں بی جے پی تو درکنار خود تلگودیشم کے حق میں کام کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری طرف تلنگانہ کی تشکیل کے بعد مناسب نمائندگی کیلئے توقعات وابستہ کرنے والے اقلیتی قائدین کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب کانگریس اور ٹی آر ایس جیسی اہم جماعتوں نے اقلیتوں کو مناسب نمائندگی نہیں دی۔ کانگریس پارٹی جو اقلیتوں کو ہمیشہ ہی بطور ووٹ بینک استعمال کرتی آئی ہے
اس نے تلنگانہ میں 111 امیدواروں میں صرف 4 مسلم اقلیت کے قائدین کو شامل کیا ہے جبکہ ایک بھی لوک سبھا حلقہ سے مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ دوسری طرف ٹی آر ایس نے ابھی تک اسمبلی کے 110 اور لوک سبھا کی 16نشستوں کیلئے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا جن میں اسمبلی کیلئے 4اور لوک سبھا کیلئے 2مسلم امیدوار کھڑے کئے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چار اسمبلی حلقوں میں تین کا تعلق پرانے شہر کے اسمبلی حلقوں سے ہے جہاں سے ٹی آر ایس امیدواروں کی کامیابی کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ دوسری طرف لوک سبھا حلقہ حیدرآباد سے مسلم امیدوار کو ٹکٹ محض نمائندگی کے علاوہ کچھ نہیں۔ کھمم میں جہاں ٹی آر ایس کوئی مضبوط کیڈر نہیں رکھتی وہاں کی لوک سبھا نشست پر مسلم امیدوار کو کھڑا کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مابقی اسمبلی حلقوں میں بھی ایک اسمبلی حلقہ سے مسلم امیدوار کے نام پر غور کیا جارہا ہے۔ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین کو امید تھی کہ کریم نگر، محبوب نگر، میدک اور عادل آباد اضلاع میں ایک، ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا جائے گا کیونکہ ان اضلاع میں پارٹی کا موقف مستحکم ہے۔ کانگریس نے بھی پارٹی کے اقلیتی قائدین کو مایوس کیا جو گذشتہ دس برسوں سے کسی عہدہ کے بغیر پارٹی کا پرچم تھامے ہوئے تھے۔ تلنگانہ ریاست کی تشکیل سے عین قبل اقلیتوں کی نمائندگی کا یہ حال ہے تو پھر کیا امید کی جاسکتی کہ 2019 میں لوک سبھا اور اسمبلی میں اقلیتیں مناسب حصہ داری حاصل کرپائیںگے۔