جمہوریت میں صرف ہوا کرتی تھی گنتی
ہے دھاندلی اس میں بھی یہ معلوم ہوا ہے
انتخابات میں مداخلت کے اندیشے
روس کی جانب سے امریکہ کے انتخابات میں کی گئی مداخلت سے ساری دنیا واقف ہے۔ حالانکہ امریکہ میں ابھی تک اس تعلق سے تحقیقات چل رہی ہیں اور امریکہ کے کئی عہدیداروں سے پوچھ تاچھ بھی ہو رہی ہے تاہم ابھی تک یہ تحقیقات کسی منطقی انجام تک نہیں پہونچ سکی ہیں۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہنوز روس کی اس مداخلت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور وہ اس تعلق سے نت نئے بیانات دیتے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں عہدیداروں اور عوام کی اکثریت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ روس نے امریکہ کے انتخابات میںنتائج پر اثر انداز ہونے کیلئے مداخلت کی ہے ۔ گذشتہ مہینے جب دونوں ممالک کے قائدین ٹرمپ اور پوٹن کی ملاقات ہوئی تھی اس وقت پوٹن نے بالواسطہ انداز میں کہا تھا کہ انہوں نے اپنے دوست ٹرمپ کی انتخابات میں مدد کی ہے ۔ حالانکہ اس کی ابھی تک کوئی صراحت نہیںہوسکی ہے لیکن یہ ہر کوئی جانتے ہیں کہ پوٹن کا اشارہ کس سمت تھا ۔ امریکہ میں کچھ عہدیداروں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ روس نے امریکہ کے انتخابات میں مداخلت کی ہے ۔ اب آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے یہ اندیشے ظاہر کئے ہیں کہ روس کی جانب سے ہندوستان اور برازیل کے انتخابات میں مداخلت کی جاسکتی ہے ۔ یہ محض کوئی شبہ یا الزام نہیں ہوسکتا ۔ اگر یہ محض شبہات بھی ہیں تب بھی ان کی پوری طرح جانچ ہونی چاہئے ۔ ان کا تفصیلی جائزہ لئے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے جس کے نتیجہ میں ملک کے مستقبل پر اثر ہوسکتا ہے ۔ ملک کے عوام اپنے طور پر اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن اگر اس حق پر کسی بیرونی ملک کی جانب سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ جس پروفیسر نے یہ اندیشے ظاہر کئے ہیں وہ کوئی عام پروفیسر نہیں ہیں بلکہ وہ یونیورسٹی میں انٹرنیٹ اسٹڈیز اور انٹلی جنس امور سے متعلق ہی تعلیم دیتے ہیں اور ان کے تبصرے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
پروفیسر ہوورڈ نے کہا ہے کہ جس ملک میں میڈیا پروفیشنل نہ ہو وہاںروس کی مداخلت کی وجہ سے صورتحال اور بھی سنگین ہوسکتی ہے ۔ ہندوستان میں میڈیا کے تعلق سے سبھی واقف ہیں۔ پروفیسر کا کہنا تھا کہ امریکہ میں میڈیا تقریبا ساری دنیا میںپروفیشنل میڈیا موجود ہے اس کے باوجود روس ان انتخابات میں اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا ۔ برازیل میں بھی اسی طرح کے اندیشے ظاہر کئے گئے ہیں کہ روس وہاں بھی اثر انداز ہوسکتا ہے ۔ جہاں تک ہندوستان کے میڈیا کا سوال ہے اس بات سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے کہ ہندوستانی میڈیا عملا جانبداری کے ساتھ کام کرتا ہے ۔ اقتدار کے گلیاروں میں اسے ہر بات درست دکھائی دیتی ہے ۔ تصویر کے ایک رخ کو یکسر نظر انداز کرکے دوسرے رخ کو پیش کرنے میں ہمارے میڈیا کو مہارت حاصل ہے ۔ بنیادی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے لا یعنی مسائل پر غیر ضروری ہوا کھڑا کرنے میں ہمارا میڈیا شہرت رکھتا ہے ۔ کسی کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرلے تو پھر اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کے نتیجہ میں پیشہ ورانہ دیانت کی دھجیاں اڑتی ہیں ۔ وہ تو محض اپنے سیاسی سرپرستوں کی خوشنودی حاصل کرنے میںاپنے لئے عافیت محسوس کرتا ہے ۔ پیشہ ورانہ مہارت آج ہندوستانی میڈیا میں کہیںنظر نہیںآتی اور وہ تقریبا ہر مسئلہ کا فریق بنتے ہوئے دوسروں کے تعلق سے فیصلے کرنے اور لوگوں میں حب الوطنی کے سرٹیفیکٹ بانٹنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے ۔ فریق ثانی کے موقف کو جاننے یا پیش کرنے کی اس کو ضرورت محسوس نہیںہوتی ۔
اس صورتحال میں اگر ملک کے عام انتخابات میںکسی بیرونی ملک کی جانب سے مداخلت کے اندیشے ظاہر کئے جاتے ہیں تو انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ان اندیشوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کے تدارک اور استرداد کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ روس کی سائبر جنگ نے امریکہ پر بھی اپنا اثر چھوڑا ہے تو پھر ہندوستان اس سے بے فکر یا بے پرواہ نہیںہوسکتا ۔اس کیلئے سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ سائبر مہارت اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ابھی سے منصوبہ بندی اور کوششیں ہونی چاہئے کہ ہمارے ملک کے انتخابات پر کوئی اثر انداز نہ ہونے پائے اور ملک کے عوام اپنی مرضی اور پسند سے جو فیصلے کریں وہی حقیقی رائے نکل کر سامنے آئے ۔