تاریخِ اُمم کا یہ پیامِ ابدی ہے
صاحب نظراں ! نشۂ قوت ہے خطرناک
انتخابات میں فنڈنگ
جمہوری عمل میں انتخابات کو انتہائی اہمیت حاصل ہے ۔ انتخابات کے ذریعہ ہی عوام اپنے لئے اپنی پسند کی حکومت کو چنتے ہیں۔ انتخابات کے دوران سیاسی جماعتیں عوام سے رجوع ہوتے ہوئے آئندہ پانچ سال کی معیاد کیلئے اپنے پروگرامس اور ایجنڈہ کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ عوام سے وعدے کئے جاتے ہیں۔ انہیں ترقیاتی منصوبوں کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ انہیں اپنے اپنے حق میں ووٹ دینے کی ہر سیاسی جماعت اور ہر امیدوار کی جانب سے ترغیب دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس عمل کو جمہوریت کا اٹوٹ حصہ کہا جاتا ہے ۔ تاہم حالیہ وقتوں میں انتخابات کے دوران پیسے کی طاقت کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے دوران عوام کے سامنے اپنے پروگرامس اورترقیاتی ایجنڈہ پیش کرنے اپنا منشور پیش کرنے کی بجائے عوام کے ووٹ خریدنے کی کوششیں بڑھ گئی ہیں۔ عوام کو پیسہ اور شراب کا لالچ دے کر ان کا ووٹ خریدا جاتا ہے اور جہاںاس سے کوئی بات بنتی نظر نہیں آتی وہاں طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ عوام کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے ۔ دھاندلیاں کی جاتی ہیں اور پولنگ بوتھس پر قبضہ کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ ایسے واقعات زیادہ نہیں ہیں لیکن ان کے ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ جہاں تک انتخابات کے دوران پیسہ خرچ کرنے کا سوال ہے شائد ہی کوئی امیدوار یا سیاسی جماعت اس میں پاک صاف ریکارڈ رکھتی ہے ۔ حالیہ مکمل ہوئے دہلی کے اسمبلی انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کو ملنے والے فنڈز پر زبردست مباحث ہوئے تھے ۔ مشکوک کمپنیوں سے فنڈز کے حصول کے الزامات عائد ہوئے تھے ۔ ایک دوسرے پر ہر جماعت فنڈز کے تعلق سے الزامات عائد کرتی رہی ہے ۔ تاہم کوئی بھی جماعت سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کی تحقیقات کروانے کیلئے تیار نہیں نظر آتی ۔ حالانکہ عام آدمی پارٹی نے مطالبہ بھی کیا تھا کہ دہلی انتخابات میں مقابلہ کرنے والی تینوں جماعتوں کو ملنے والے فنڈز کی تحقیقات کروائی جانی چاہئے تاہم دوسریی جماعتوں نے اس پر رضا مندی کا اظہار نہیں کیا تھا ۔ ان کی خاموشی جمہوری عمل کیلئے صحتمند نہیں کہی جاسکتی ۔
اب الیکشن کمیشن ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کے تعلق سے سنجیدگی سے غور کرنے لگا ہے ۔ اب کمیشن نے لوک سبھا انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کی جانب سے خرچ کی گئی رقومات کی تفصیلات مرکزی بورڈ برائے راست محاصل کو روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان فنڈز کی تحقیقات کروائی جاسکیں ۔ سیاسی جماعتوں نے جو تفصیلات پیش کی ہیں ان کے بموجب لوک سبھا انتخابات کے دوران بی جے پی نے 714 کروڑ روپئے اور کانگریس نے 516 کروڑ روپئے خرچ کئے ہیں۔ یہ اخراجات ان جماعتوں کو ملنے والے فنڈز کی تفصیلات سے کافی زیادہ ہیں۔ ان کا حساب و کتاب کسی بھی جماعت نے پیش نہیں کیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے بموجب صرف ڈی ایم کے ایک ایسی جماعت ہے جس نے خود کو ملنے والے فنڈز کے تعلق سے تفصیلات اور مکمل حساب پیش کیا ہے ۔ باقی کسی بھی جماعت نے یہ تفصیل پیش کرنا ضروری نہیں سمجھا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے والی بی جے پی نے بھی اقتدار ملنے کے بعد بھی اپنی فنڈنگ کے تعلق سے کچھ بھی تفصیل نہیں بتائی ہے ۔ کانگریس نے بھی اپنا بہی کھاتہ پیش نہیں کیا ہے ۔ دوسری تمام جماعتوں نے اس تعلق سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ ایک واحد جماعت عام آدمی پارٹی ہے جس نے اپنے فنڈز کی تفصیلات کو راست اپنی ویب سائیٹ پر پیش کردیا ہے ۔ دوسری جماعتوں کو اس سے بھی سبق حاصل نہیں ہوا اور کانگریس و بی جے پی نے تو دہلی انتخابات میں اپنا حساب پیش کرنے کی بجائے عام آدمی پارٹی پر الزامات کی بوچھار کردی تھی ۔
اب جبکہ لوک سبھا انتخابات ہوکر نو مہینے کا وقت گذر چکا ہے ۔ دہلی اسمبلی کے انتخابات کا عمل بھی مکمل ہوچکا ہے اور آئندہ وقتوں میں بہار ‘ اتر پردیش اور مغربی بنگال میں انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں الیکشن کمیشن کو آگے آکر سیاس جماعتوں کی فنڈنگ کے تعلق سے تحقیقات کروانی چاہئیں۔ خود سیاسی جماعتوں کو اپنی شبیہہ بہتر بنانے کیلئے انہیں ملنے والے فنڈز کے تعلق سے حساب کتاب الیکشن کمیشن کو پیش کرنا چاہئے ۔ عوام کے سامنے فنڈنگ کی تفصیلات بتانی چاہئیں ۔ ملک کے عوام کو بھی سیاسی جماعتوں سے ان کے فنڈز کا حساب و کتاب طلب کرنا چاہئے تاکہ انتخابات میں پیسے کی طاقت اور کالے دھن کے استعمال کو روکا جاسکے ۔ ایسا کرنا جمہوری عمل کو شفاف بنانے کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے تاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابات کے دوران پیسے کے بل پر اقتدار حاصل نہ کرسکے اور حقیقی عوامی نمائندوں کا انتخاب عمل میں آسکے ۔