تم دھن کی خاطر مت بکو
آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
انتخابات میں دولت کا استعمال
انتخابات کا عمل انتہائی عروج پر پہونچ گیا ہے ۔ ہر جماعت اور ہر امیدوار بہرصورت کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کیلئے ہر قسم کے حربے اور ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ رائے دہندوں کو لالچ دئے جا رہے ہیں ۔ ان سے نت نئے وعدے کئے جارہے ہیں۔ انہیں ہتھیلی میں جنت دکھائی جا رہے ہیں۔ ماضی کے ایسے کارنامے گنائے جارہے ہیں جو کئے ہی نہیں کئے گئے ۔ جذباتی تقاریر کہیں ہیں تو کہیں دولت کا بے دریغ استعمال ہے ۔ کہیں ذات پات کے نام پر ووٹ مانگے جا رہے ہیں تو کہیں مذہب کا استحصال کیا جارہا ہے ۔ کہیں شخصیت پرستی ہے تو کہیں انانیت کا عروج ہے ۔ غرض یہ کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اسی جمہوری عمل کا مذاق بنادیا جا رہا ہے جس عمل کے نتیجہ میں سیاسی قائدین کو اقتدار حاصل ہوتا ہے اوروہ قانون ساز اداروں میںرسائی حاصل کرتے ہیں۔ ملک بھر میں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات میں دولت کے بیجا استعمال کو روکنے کیلئے ہر ممکنہ اقدامات کئے جارہے ہیں۔ جگہ جگہ چیک پوسٹ قائم کرتے ہوئے تلاشی کا کام کیا جارہا ہے اور اسی تلاشی مہم کے نتیجہ میں ملک بھر میں کروڑہا روپئے ضبط کئے گئے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہندوستان بھر کی تمام ریاستوں میں سب سے زیادہ دولت اور غیر قانونی رقومات آندھرا پردیش میں ضبط کی گئی ہیں۔ یہ رقومات رائے دہندوں کو خریدنے اور انہیں رشوتیں دینے کے مقصد سے منتقل کی جا رہی تھی ۔ جو رقم ضبط کی گئی ہے وہ ایک معمولی رقم ہوسکتی ہے اور اس سے سینکڑوں گنا زیادہ رقم کا استعمال کرتے ہوئے ہماری ریاست میں سیاسی جماعتیں اور امیدوار رائے دہندوں کو خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کا یہ عمل جمہوریت کا مذاق اڑانے سے کم نہیں ہے ۔ رائے دہندوں کے ووٹ خرید کر قانون ساز اداروں میں رسائی حاصل کرنے والے کبھی بھی عوام کے نمائندے نہیں کہلاسکتے بلکہ یہ لوگ بدعنوان ہیں اور انہیں عوام کی تائید حاصل ہونے کا دعوی ہرگز نہیں کیا جاسکتا ۔یہ لوگ عوام کی رائے کو خرید کر ایوان تک پہونچتے ہیں اور پھر عوام کے نمائندہ ہونے کے نام پر اپنی من مانی کرنے لگتے ہیںا ور اپنے لئے وہ سب کچھ حاصل کرلیتے ہیں جس سے خود رائے دہندے محروم ہوتے ہیں۔
ویسے تو انتخابات کے دوران اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں لیکن اس بار ایسا لگتا ہے کہ یہ غیر قانونی عمل بہت زیادہ شدت اختیار کرگیا ہے ۔ ہر امیدوار کی جانب سے دولت پانی کی طرح بہائی جا رہی ہے ۔ بیشتر علاقوں میں تو شراب کی تقسیم عمل میں لائی جا رہی ہے ۔ نوجوانوں میں کھیل کود کے سامان ‘ موبائیل فونس ‘ گاڑیاں اور خواتین میں سونے کے زیورات اور نہ جانے کیا کیا تقسیم کیا جارہا ہے ۔ یہ سب کچھ کسی فلاحی اور ترقیاتی پروگرام کے نہ ہونے کا ثبوت ہے ۔ یہ عوامی نمائندے دولت کی طاقت سے ایوان میں اپنے لئے نشست تو خریدلیتے ہیں لیکن انہیں اپنے رائے دہندوں کے مسائل اور ان کی یکسوئی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ وہ اپنے حلقہ کے عوام کے نمائندے کہلاسکتے ہیں۔ پولنگ کے موقع پر بوگس رائے دہی اور بوتھس پر قبضے کے ذریعہ الگ سے جمہوریت کا مذاق اڑایا جاتا ہے لیکن اب جو دولت کا استعمال کیا جارہا ہے اس کے نتیجہ میں توجمہوری عمل کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ خود رائے دہندے یہ سوچنا چاہئے کہ انہیں وقتی طور پر کچھ فائدہ پہونچاتے ہوئے چند روپیوں کے عوض ان کی رائے خرید کر اقتدار حاصل کرنے والے ان کے نمائندے نہیں ہوسکتے ۔ وہ ان کی رائے کی نہ کوئی اہمیت رہ جاتی ہے اور نہ وقعت رہ جاتی ہے ۔ نہ پیسے لے کر ووٹ ڈالنے والے اپنے نمائندے سے کوئی سوال ہی کرنے کے موقف میں رہ جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں جمہوریت ایک بے معنی سے عمل ہوکر رہ جاتی ہے ۔
ہندوستان کی جمہوریت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور یہ ایسا عمل ہے جو ہمارے ملک کی بنیادیں مستحکم کرتا ہے لیکن ملک اور قوم کے نام پر بلند بانگ دعوے کرنے والے سیاسی قائدین اور جماعتیں ہی اپنے اعمال سے ان بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پیسے کی طاقت پر ووٹ خریدنے والے عوام کے نمائندے نہیں ہوسکتے اور اس کا احساس خود انہیں بھی ہے لیکن اقتدار کا نشہ ایسا ہے جس میں وہ دوسری کوئی بات سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہوسکتے ۔ عوام کو ایسے حالات میں اپنے سیاسی شعور اور بصیرت کے مظاہرہ کے علاوہ اپنی ذمہ داریوں کو سبھی سمجھنا چاہئے ۔ انہیں یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ وقتی فائدہ حاصل کرکے پانچ برس تک ہاتھ ملتے رہنا ان کیلئے ثمر آور نہیں ہوسکتا ۔ انہیں دیانتداری کو بنیاد بنا کر حقیقی نمائندوں کو منتخب کرنے میں اپنا رول ادا کرنا ہوگا ۔ پیسے کی طاقت سے اقتدار حاصل کرنے والا کوئی بھی نمائندہ عوام کے مسائل کے تئیں سنجیدہ نہیں ہوسکتا اور یہ بات رائے دہندوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔