انتخابات سے قبل اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی مذموم کوششیںناقابل برداشت

حیدرآباد۔/28 جنوری(سیاست نیوز) یہ نہایت ہی شرمناک ہے کہ ہمارے ملک میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی اجتماعی عصمت ریزی اور مبلغین کے قتل کی واردات کو مظالم میں شمار نہیں کیا جارہا ہے۔ انتخابات سے قبل اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بنانا سیاسی مشغلہ بن گیا ہے تاکہ اقلیتوں کے خلاف منافرت پھیلاتے ہوئے سیاسی مقاصد حاصل کئے جائیں۔ اقلیتوں کے خلاف مظالم و جرائم کی روک تھام میں حکومت یکسر ناکام ہوگئی ہے۔ اقلیتوں کے خلاف بڑھتے مظالم کے خلاف مختلف اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور متفکرین نے آج انتباہ دیا کہ یہ سلسلہ فوری روکا جائے۔ سی ایس آئی میدک ڈائیوسن آفس میں اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے مختلف دانشوروں نے اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ان واقعات کے اعادہ کو روکنے استقدامی کارروائی کرنے اور ملزمین کو قرار واقعی سزاء دلانے کا مطالبہ کیا۔ مسرز ایف وی بالا، ریورینڈ اے سی سولومن راج، ظہیر الدین علی خان منیجئنگ ایڈیٹر روزنامہ سیاست، مولانا سید طارق قادری، سریش بنجامن، نانک سنگھ نشتر، گوتم جین اور دیگر نے کہا کہ ہماری ریاست سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکی سافٹ ویر انجینئر ایستھر انوہیا کی ممبئی میں ہلاکت ایک ایسا بدبخت واقعہ ہے جو نربھیا قانون کے نفاذ کے بعد بھی خواتین کے تحفظ میں حکومت کی نااہلی و تساہل کو ظاہر کرتا ہے۔ ان قائدین نے بتایا کہ حکومت کے خلاف احتجاج کے طور پر اقلیتی برادریوں کی جانب سے /31 جنوری کو 2:00 بجے دن سی ایس آئی ویزلی چرچ کلاک ٹاور تا اندرا پارک منظم کی جائے گی۔ جناب ظہیر الدین علی خان نے کہا کہ انتخابات سے عین قبل اقلیتی برادری کے لوگوں کو نشانہ بنانے کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل اقلیتی برادری کے

عبادت خانوں میں بم دھماکے کئے گئے اور اقلیتوں کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ مکہ مسجد، اجمیر شریف کی درگاہ اور مالیگاؤں میں مسجد کے قریب کئے گئے دھماکوں کے لئے مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ ایک مسلمان، مسجد میں دھماکہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ پاسٹرس کے قتل اور ممبئی میں ریاست کی ایک لڑکی کی عصمت ریزی و قتل کے واقعات سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ الیکشن سے قبل گھناؤنا سیاسی کھیل شروع کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکندرآباد ایک پرامن علاقہ ہے جہاں ہر مذہب اور طبقہ کے لوگ بستے ہیں جسے منی انڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ اقلیتوں پر مظالم کرنے والوں کے خلاف پولیس مناسب کارروائی کرنے سے گریز کررہی ہے۔ کیپٹن پانڈو رنگا نے کہا کہ اقتدار پر آنے کے لئے کچھ لوگ معصوم جانوں سے کھیلتے ہیں۔ پولیس مشنری اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر مناسب کارروائی نہیں کرتی اور تفتیش کو غلط راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ مسٹر گوتم جین نے کہا کہ جین برادری کو حال ہی میں اقلیتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ وہ بہ حیثیت رکن اقلیتی کمیشن یہ تیقن دینا چاہتے ہیں کہ اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کا کمیشن سخت نوٹ لے گا اور پولیس مشنری کو اصل خاطیوں کو پکڑتے ہوئے ان کے خلاف قرار واقعی سزاء دینے کی ہدایت دے گا۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں نلگنڈہ میں ایک نابالغ مسلم لڑکی کی عصمت ریزی کرکے اس کا قتل کردیا گیا تھا جس کا اقلیتی کمیشن نے سخت نوٹ لیتے ہوئے پولیس مشنری کو مناسب کارروائی کرنے کا پابند کیا تھا۔ مولانا سید طارق قادری نے معصوم افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے حتیٰ کہ پاسٹرس کو بھی قتل کیا جانے لگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے اور 2014 انتخابات سے قبل احتیاطی اقدامات کئے جانے چاہئے تاکہ ایسے واقعات کا پھر سے اعادہ نہ ہونے پائے۔

مولانا حسین شہید نے کہا کہ اقلیتوں پر جاری مظالم ایسی حرکتیں ہیں جس کی ہر انسان کو مذمت کرنی چاہئے۔ انتخابات سے قبل اقلیتوں کے مذہبی پیشواؤں کو نشانہ بناکر خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے سیاسی جماعتوں کے شر پسند عناصر کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بالادستی حاصل کرنے کے اور بھی ذرائع ہیں۔ اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے، قتل و غارت گری کے ذریعہ اور منافرت پھیلاتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے منصوبوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی تمام برادریوں کو متحدہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایسی مذموم حرکتوں کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے جو جمہوری ملک پر ایک بدنما داغ ہے۔ فرقہ پرست عناصر منافرت پھیلاتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے کی شرمناک کوششیں کررہے ہیں۔ مسٹر ایف وی بالا نے کہا کہ لگاتار کئی برسوں سے اقلیتوں اور کمزور طبقات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک عرصہ سے سیکولرزم اور کاذب سیکولرازم کے نظریات کے حامل لوگ ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ کرلئے ہیں تاکہ معصوم لوگوں کو جھانسہ دیتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ کمزور طبقات اور اقلیتوں کو متحدہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ مسٹر نانک سنگھ نشتر نے کہا کہ ایک اقلیتی برادری کو جب نشانہ بنایا جاتا ہے تو دوسری اقلیتی برادریاں خاموشی اختیار کرلیتی ہیں جس کی وجہ سے شر پسند عناصر کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے مذموم جرائم کے خلاف تمام اقلیتی برادریوں کو اجتماعی آواز اٹھانی چاہئے۔ مسٹر سریش بنجامن اور دیگر نے بھی اقلیتوں پر مظالم کے خلاف متحدہ جدوجہد کرنے پر زور دیا۔