انتخابات اور مسلمان

گھر پر مرے یہ لوگوں کی کیوں لگ گئی قطار
کیوں پانچ سال بعد مری یاد آگئی
انتخابات اور مسلمان
ملک میں انتخابی عمل پوری شدت کے ساتھ شروع ہوچکا ہے ۔ انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہونچ گئی ہیں اور انتخابی مہم کے دوران سیاستدانوں کی جانب سے سماج کے ہر طبقہ کو رجھانے کی کوششیں بھی انتہا پر پہونچ رہی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت ‘ سماج کے ہر طبقہ کی تائید حاصل کرنے کی کوششوں میں جٹ گئی ہے ۔ ان کیلئے نت نئے وعدے کئے جا رہے ہیں اور سابقہ وعدوں کی تکمیل کا ادعا کیا جارہا ہے ۔ اب جبکہ پولنگ کا عمل بھی شروع ہونے والا ہے ایسے میں ہر جماعت کو مسلمانوں کی تائید کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی بھی یہ سمجھ چکی ہے کہ اسے دہلی کا سنگھاسن حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے ہونگے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کیلئے اپنے طور پر کوششیں کر رہی ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی کو مسلمان کی تائید حاصل ہونی مشکل ہی نہیں تقریبا نا ممکن ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ نام نہاد مسلم قائدین اپنے ذاتی مفادات کیلئے بی جے پی سے وابستہ ہیں اور وہ بی جے پی میں مسلمانوں کا چہرہ بنے ہوئے اس پارٹی کے مفادات کا تحفظ کرنے لگے ہیں جو بابری مسجد کی شہادت کی ذمہ دار ہے اور جو گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ دار بھی ہے ۔ اب کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے بھی مسلم علما سے ملاقات کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کی تائید کی اپیل کی ہے ۔ انہوں نے دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام احمد بخاری سے ملاقات کی اور بی جے پی اس ملاقات کو بھی سیاسی رنگ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے رجوع ہوئی ہے ۔ احمد بخاری نے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کی تائید کی تھی اور وہاں اس پارٹی کو جو کامیابی ملی ہے وہ سب جانتے ہیں۔ یہ کامیابی محض مسلمانوں کی تائید کا نتیجہ تھی ۔ اب یو پی میں سماجوادی پارٹی بھی ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کے اس تعاون کو فراموش کرچکی ہے ۔ مظفر نگر فسادات سے جس طرح نمٹا گیا ہے اس سے یہی تاثر ملتا ہے ۔ سونیا گاندھی نے مسلمانوں کیلئے کوئی خاص وعدے وغیرہ نہیں کئے اور نہ ہی وہ اس موقف میں ہیں کہ گذشتہ دس سال کے دوران مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے کسی خاطر خواہ اقدام کا دعوی کرسکیں۔ یہ ان کیلئے ایک مشکل ترین صورتحال ہے
کانگریس کے اقتادر والے دس سال میں مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ سارے ملک کے سامنے ہیں ۔ مسلمانوں کی حالت اس ملک میں جہاں وہ صدیوں حکمران رہے ‘ پسماندہ طبقات سے بھی بدتر ہوگئی ہے ۔ کانگریس زیر اقتدار حکومت نے مسلمانوں کی حالت کو خود سروے کروایا تاہم اس حالت کو سدھارنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ۔ جسٹس راجندر سچر کمیٹی کی رپورٹ اور جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کو کانگریس نے برفدان کی نذر کردیا اور مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ۔ جس طرح مسلم نوجوانوں کو ملک بھر میں دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کرتے ہوئے ان کی زندگیوں کو اجیرن کردیا گیا وہ سب جانتے ہیں۔ کانگریس نے کئی موقعوں پر اعتراف کیا کہ مسلمانوں کو محض تعصب کی بنا پر نشانہ بنایا گیا اور کئی بے قصور نوجوان جیل بھیج دئے گئے ۔ اس اعتراف کے باوجود کانگریس نے ان مسلمانوں کی رہائی کیلئے عملی طور پر یا قانونی طور پر کچھ بھی کرنے سے گریز ہی کیا ۔ اس طرح کانگریس نے مسلمانوں سے محض زبانی ہمدردی کی ہے اور اس کا کوئی بھی عمل مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں کہا جاسکتا ۔ اب مسلمان اس طرح کی زبانی جمع خرچ پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی کا ساتھ دینے یا کسی جماعت کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کو شائد تیار نہیں ہونگے ۔
ان حالات میں عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال نے اپنی جماعت کا منشور کل جاری کیا اور انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ ملک میں مسلم نوجوانوں کے خلاف جتنے بھی مقدمات چل رہے ہیں انہیں اندرون چھ ماہ مکمل کرلیا جائیگا ۔ اس طرح جو سینکڑوں نوجوان بے قصور ہیں انہیں رہائی نصیب ہوسکتی ہے اور جو چند گمراہ نوجوان کسی طرح کی کوئی کارروائی کے ذمہ دار ہیں تو انہیں سزا مل سکتی ہے ۔ ایسے میں مسلم نوجوانوں کو برسوں تک جیل کی تاریکیوں میں قید رہنے سے بچایا جاسکتا ہے ۔ کانگریس نے اس ملک پر نصف صدی سے زیادہ حکومت کی ہے لیکن اس کے دور میں مسلمان پھانسے گئے رہا نہیں کئے گئے ۔ بی جے پی سے اس طرح کی کوئی امید کرنا فضول ہی ہے ۔ اب اروند کجریوال نے جو وعدہ کیا ہے وہ مسلمانوں کیلئے ایک امید کی کرن ہے ۔ یہ ایک انصاف پر مبنی وعدہ ہوسکتا ہے اور دوسری جماعتوں کو بھی جو مسلمانوں کی تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ نہ صرف مسلم نوجوانوں کو رہائی دلائیں گے بلکہ مسلمانوں کے ساتھ مکمل انصاف کیا جائیگا۔ جب تک یہ وعدے نہیں ہوتے مسلمانوں کی تائید کا حصول مشکل رہے گا ۔