انتخابات اور شخصیت پرستی کا عروج

جان ، جوکھم میں ڈالنے والے
اِک جواں انقلاب لگتے ہیں
انتخابات اور شخصیت پرستی کا عروج
ملک میں انتخابات کا ماحول ہے اور ہر سمت انتخابی گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے ۔ سیاسی جماعتو ں کی سرگرمیوں میں بھی تیزی پیدا ہوگئی ہے ۔ ان کے آپسی اتحاد تقریبا تمام ریاستوں میں طئے پا گئے ہیں اور اب انتخابی مہم اور امیدواروں کے امکانات کو بہتر بنانے پر ساری توجہ مبذول ہوگئی ہے ۔ تاہم اس مرتبہ ایک بات خاص طور پر دیکھنے میں آئی ہے کہ انتخابات اور انتخابی مہم کے دوران مسائل اور پالیسیوں کی باتیں کہیں پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ خاص طور پر بی جے پی کی جانب سے اپنے پانچ سالہ دور حکومت کی کارکردگی پر کوئی رپورٹ کارڈ پیش کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے اور نہ ہی آئندہ کیلئے کسی منشور یا منصوبے کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔ صرف ایک بات کو اجاگر کرنے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے اور وہ ہے شخصیت پرستی۔ مودی کی مدح سرائی پر ہی بی جے پی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ اپوزیشن کی ہر تنقید کا جواب مودی کی مدح سرائی اور شخصیت پرستی کے ذریعہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ خود وزیر اعظم بھی خود نمائی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھنا چاہتے ۔ وہ اپوزیشن کو بھی اسی لہجے میں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جس لہجے میں ان کے ماتحت قائدین بات کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی قائدین اور اس کی حلیف جماعتوں کے سامنے عوام کے درمیان رکھنے کو کوئی منصوبہ یا کوئی ریکارڈ نہیں ہے ۔ اسی لئے ہر کام کا سہرا مودی کے سر باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ در اصل ملک کی وفاقی نظام حکومت کے ڈھانچہ کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش ہے ۔ ملک کے سرکاری ملازمین ‘ کسانوں ‘ نوجوانوں ‘ مزدوروں ‘ افسر شاہی اور ہر شعبہ کو عملا ناکارہ قرار دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ صرف مودی کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ اسی طرح ملک کو جو مسائل درپیش ہیں اس کا ٹوکرا اپوزیشن کے سر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بیروزگاری کیلئے کانگریس ذمہ دار ‘ کسانوں کی خود کشی کیلئے کانگریس ذمہ دار ‘ مسئلہ کشمیر کیلئے پنڈت نہرو ذمہ دار ‘ ریاستوں میں مشکلات کیلئے وہاں کی مقامی حکومتیں ذمہ دار قرار دی جا رہی ہے ۔
یہ صورتحال اچانک ہی پیدا نہیں ہوئی ہے ۔ جس وقت سے گذشتہ انتخابات میں مودی نے کامیابی حاصل کی تھی اورا قتدار سنبھالا تھا اسی وقت سے ان کے زر خرید میڈیا اور ان کے حواریوں نے مودی کی شخصیت پرستی شروع کردی تھی ۔ ہر مسئلہ کا حل مودی کے پاس ہونے کا دعوی کیا تھا ۔ اس طرح کے دعووں کے باوجود گذشتہ پانچ سال میں مسائل میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے ۔ بیروزگار نوجوانوں کی تعداد بڑھ گئی ہے ۔ کسان پہلے سے زیادہ تعداد میں خود کشی کر رہے ہیں۔ خواتین کی سلامتی کی صورتحال ابتر ہوگئی ہے ۔ ملک میں ہزاروں کروڑ روپئے کے قرض حاصل کرتے ہوئے کارپوریٹ تاجر ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ کسانوں کے قرض معاف نہیں ہو رہے ہیں اور کارپوریٹ طبقہ کے لاکھوں کروڑ کے قرض معاف بھی کئے جا رہے ہیں۔ ایک مخصوص حلقہ کو ہر طرح کی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ مودی اپنے حاشیہ بردار کارپوریٹس کی تشہیر کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں حالانکہ اس سے سرکاری شعبہ جات کو نقصان ہو رہا ہے ۔ ان سب باتوں کے باوجود مودی کے حواری اور زر خرید میڈیا انتخابات کو مودی اور اپوزیشن کے مابین مقابلہ قرار دینے کی کوششوں ہی میں مصروف ہے۔ حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی تنہا مقابلہ کر رہی ہے ۔ درجنوں جماعتوں کے ساتھ اس نے بھی اتحاد کر رکھا ہے ۔
زر خرید میڈیا ہو یا مودی کے حواری ہوں انہیں اندازہ ہے کہ اگر مودی کو شکست ہوجاتی ہے تو ان کے کالے کرتوت سب کے سامنے آجائیں گے ۔ ان سے جواب طلبی ہوگی اور اسی سے بچنے کیلئے وہ ملک کی ترقی اور قوم کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کرتے ہوئے محض شخصیت پرستی کی حدوں کو پار کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ملک کی جمہوریت کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے ۔ عوام کے ذہنوں پر ایک سوچ اور شخصیت مسلط کرنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔ حقیقی اور سلگتے ہوئے مسائل کو عوام کے ذہنوں سے محو کرتے ہوئے پیشہ ورانہ دیانت کے تقاضوں کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ یہ سارا کچھ محض ایک شخص کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہے ۔ اس طریقہ کار سے گریز کرتے ہوئے حقیقی مسائل کی بنیاد پر انتخاب کو یقینی بنانے کی جدوجہدکی جانی چاہئے ۔