انتخابات اور تیسرے محاذ کا امکان

اُمیدیں باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے
انتخابات اور تیسرے محاذ کا امکان
ملک بھر میں شدید گرمی کاسلسلہ جاری ہے ۔ موسم کی گرمی سے زیادہ انتخابات کی گرمی عروج پر پہونچ چکی ہے ۔ جیسے جیسے انتخابات کے مراحل مکمل ہوتے جارہے ہیں ویسے ویسے سیاسی جماعتوں کی بے چینی اور ووٹ حاصل کرنے کی کوششوں میںشدت آتی جا رہی ہے ۔ ہر جماعت اور امیدوار کی جانب سے اپنی اپنی کامیابی کو یقینی بنانے سر دھڑ کی بازی لگائی جا رہی ہے ۔ ابتدائی مراحل میں توقعات کے مطابق کامیابی کے امکانات کو کم سے کم دیکھتے ہوئے بی جے پی نے مسلمانوں کے تئیس ہمدردی کارویہ اپنانے کا ڈھونگ شروع کردیا ہے ۔ بی جے پی بھلے ہی کچھ بھی کرلے مسلمان اس پر یقین نہیں کرسکتے اور نہ اسے ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کانگریس پارٹی کی جانب سے بھی مسلمانوں کو انتخابات کے آخری مراحل میں رجھانے کیلئے کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ کانگریس پارٹی نے گذشتہ دنوں عملی اعتبار سے ایک ضمنی منشور جاری کیا ہے جس میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر کانگریس کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوجائے تو پسماندہ مسلمانوں کو تحفظات فراہم کئے جائیں گے ۔ کانگریس نے اپنے اصل منشور میں اس طرح کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا اور اب اسے بدلتے ہوئے حالات میں یہ وعدہ کرنا ضروری محسوس ہونے لگا ہے ۔ اس نے اس وعدہ کو کسی باضابطہ اعلان کے ذریعہ نہیں منکشف کیا ہے بلکہ اسے خاموشی کے ساتھ اپنی ویب سائیٹ پر پیش کرتے ہوئے رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے ۔ تاہم اس کی یہ کوشش تاخیر سے کی گئی کوشش ہے اور شائد اس کا اسے توقعات کے مطابق فائدہ حاصل نہیں ہو پائیگا ۔ یہ اشارے بھی واضح ہوجاتے جارہے ہیں کہ بی جے پی کو بھی انتخابات میں اس کی توقعات کے مطابق کامیابی ملنی مشکل ہے اور اس کا خود بی جے پی قائدین کو احساس ہونے لگا ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وہ بھی اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔کانگریس اور بی جے پی کو توقعات کے مطابق کامیابی ملنے کے امکانات چونکہ کم ہوتے جا رہے ہیں اس لئے مابعد انتخابات تیسرے محاذ کا رول اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے اور اس خود وہ جماعتیں بھی سرگرم ہوگئی ہیں جو انتخابات کے بعد تیسرے محاذ کا حصہ ہوسکتی ہیں یا اس میں اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ تیسرے محاذ میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو سب سے اہم حصے دار کے طور پر ابھرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اپنے عزائم کئی بار واضح کردئے ہیں کہ وہ تیسرے محاذ میں وزارت عظمی کے دعویدار ہونگے لیکن اس تعلق سے قطعی فیصلہ محاذ کے قائدین کرسکتے ہیں۔ تیسرے محاذ میں کمیونسٹ جماعتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں اور دوسری علاقائی جماعتوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔ ایک اہم جماعت ترنمول کانگریس فی الحال تیسرے محاذ کے تعلق سے اندیشوں کا شکار ہے اور وہ بھی انتخابات کے بعد مرکز میں کوئی اہم رول ادا کرنے کو بے چین ہے ۔ اس کا یہ دعوی ہے کہ مابعد انتخابات بی جے پی و کانگریس کے بعد ترنمول کانگریس تیسری بڑی جماعت ہوگی ۔ سماجوادی پارٹی کا بھی یہی دعوی ہے ۔ کمیونسٹ جماعتیں الگ سے کچھ جماعتوں کو محاذ میں شمولیت کیلئے تیار کرنے مصروف ہیں۔ بیجو جنتادل نے کوئی واضح موقف ظاہر نہیں کیا ہے جبکہ جنتادل یونائیٹیڈ بھی اس تعلق سے ابھی کوئی فیصلہ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ یو پی میں مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی سب سے الگ تھلگ دکھائی دیتی ہے کیونکہ وہ ایسے کسی محاذ یا اتحاد میں شامل نہیں ہوسکتی جس میں سماجوادی پارٹی شامل ہو۔ اب یو پی میں بی ایس پی اور ایس پی میں جس کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہونگی وہی جماعت تیسرے محاذ کی اہم فریق ہوسکتی ہے ۔ مایاوتی بھی وزارت عظمی کیلئے اپنی خواہشات کا وقفہ وقفہ سے اظہار کرتی رہی ہیں اور وہ ملک کی پہلی دلت وزیر اعظم بننا چاہتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اس رسہ کشی کے دوران مرکزی وزیر خارجہ مسٹر سلمان خورشید نے کل ایک بیان دیا تھا اور موجودہ تناظر میں وہ اہمیت کا حامل نظر آتا ہے ۔ سلمان خورشید نے کہا تھا کہ انتخابات کے بعد معلق پارلیمنٹ تشکیل پانے کی صورت میں ان کی پارٹی مرکز میں تشکیل حکومت کیلئے تیسرے محاذ کی تائید حاصل کرسکتی ہے ۔سلمان خورشید کا یہ اعلان اہمیت کا حامل ہے اور اس سے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا اندازہ کرنا آسان ہوجائیگا۔ اس کے نتیجہ میں ملک کے ان حلقوں میں جہاں ابھی رائے دہی ہونے والی ہے رائے دہندوں کو اپنے ووٹ کے استعمال میںکسی طرح کے اندیشوں میں مبتلا ہونے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کیونکہ بی جے پی کو اقتدار سے روکنے کے معاملہ میں دوسری جماعتیں متفق ہیں اور ان کی ایک رائے پائی جاتی ہے ۔ ایسے میں معلق پارلیمنٹ کی تشکیل کی صورت میں کسی طرح کی گٹھ جوڑ اور ساز باز کی بجائے بآسانی تیسرے محاذ کی حکومت قائم کرنے کیلئے راہ ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے۔