فوج کا آر ایس ایس سے تقابل
مودی اور پاریکر کی قلابازی
رشیدالدین
مسئلہ چاہے کچھ ہو سیاسی اغراض کیلئے اس کا استعمال نریندر مودی حکومت اور بی جے پی کا شیوہ بن چکا ہے ۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہو کہ مذہبی نوعیت کا کوئی معاملہ حکومت کا واحد ایجنڈہ ہے کہ ووٹ حاصل کرنے کو ترجیح دی جائے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ہندتوا کی عینک سے دیکھنے اور ہندوتوا کے ایجنڈہ کے مطابق مسائل کو ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کئی حکومتیں گزری لیکن کسی نے مسلح افواج کے بھگوا کرن کی کوشش نہیں کی۔ فوج کی کارروائیوں کو مخصوص مذہبی نظریات سے جوڑنا انتہائی بدبختانہ اور فوج کے وقار کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ ڈھائی برس میں اچھے دن لانے میں ناکام اور ہر سطح پر ناکامی کے بعد بی جے پی نے اترپردیش ، پنجاب اور دیگر تین ریاستوں میں کامیابی کیلئے فوج کو سیاسی لڑائی میں گھسیٹ دیا ہے۔ بی جے پی کے لئے محض انتخابی کامیابی سب کچھ ہے اور اس سے کسی بھی کارروائی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ کامیابی کیلئے کارناموں کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ ظاہر ہے جب کوئی کارنامہ نہ ہو تو پھر بی جے پی کے پاس متنازعہ موضوعات سے ہٹ کر کچھ نہیں رہے گا۔اقتدار ملتے ہی وقفہ وقفہ سے متنازعہ مسائل کو ہوا دی گئی اور اب جبکہ پانچ اہم ریاستوں میں مودی کا وقار داؤ پر لگ چکا ہے تو یکساں سیول کوڈ اور رام مندر جیسے حساس مسائل کو چھیڑ دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں فوج نے دشمن کی سرزمین پر دہشت گرد ٹھکانوں کے خلاف جو سرجیکل اسٹرائیک کئے ان کا سہرا اپنے سر باندھا جارہا ہے جیسے کہ سنگھ پریوار کے کارکنوں نے یہ بہادری دکھائی ہو۔ وزیراعظم نریندر مودی اپنے حقیقی ہندو وادی اور سیوم سیوک چہرہ کو چھپا نہ سکے اور سرجیکل اسٹرائیک کو اسرائیل کی کارروائی سے مشابہ قرار دیا۔ نریندر مودی نے اسرائیل نواز پالیسی کو ظاہر کیا تو دوسری طرف وزیر دفاع منوہر پاریکر نے ایک قدم آگے بڑھ کر سرجیکل اسٹرائیک کو آر ایس ایس کی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیا۔
سیکولر نظریات پر قائم دنیا کی عظیم جمہوریت کیلئے یہ سیاہ دن ہی ہوگا جب ملک کی باوقار افواج کو ہندوتوا کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ افواج میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افسر اور جوان موجود ہیں اور ہندوستانی افواج نے کبھی بھی خود کو سیاسی تنازعات کا حصہ نہیں بنایا اور نہ ہی سیاست میں دلچسپی لی۔ اس کے پیش نظر ہمیشہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت رہی ہے۔ پڑوسی ملک پاکستان میں فوجی مداخلت اور منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کی مثالیں موجود ہیں لیکن ہندوستانی فوج نے اپنے فریضہ سے کبھی منہ نہیں موڑا ۔ دشمن کے خلاف کارروائی کے وقت فوجی یہ نہیں سوچتے کہ وہ کس مذہب اور کس نظریہ کے حامل ہیں۔ ان کے پیش نظر صرف ٹارگٹ ہوتا ہے۔ فوجی کارروائی کو آر ایس ایس کی تعلیمات سے جوڑنے والے کارگل کی لڑائی میں مسلم ریجمنٹ کی فیصلہ کن کارروائی کو کیا کہیں گے، جس سے آخری چوٹی پر ہندوستان کو دوبارہ قبضہ حاصل ہوا۔ بی جے پی قائدین کو کیا اس بات کا احساس ہے کہ ان کے موقع پرستانہ بیانات سے فوج پر کیا گزرے گی ۔ وزیراعظم مودی اور وزیر دفاع پاریکر ایک دوسرے کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں ۔ مودی کو اترپردیش اور پاریکر کو گوا میں بی جے پی کے اقتدار کی فکر ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک کے سلسلہ میں نریندر مودی نے جس طرح اسرائیل کی مثال پیش کی ہے اس سے قربت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد جو پہلا ایویشن شو ہوا تھا ،
اس کے مہمان اسرائیلی وزیر دفاع تھے۔ فوجی کارروائی کیلئے اسرائیل کی مثال پیش کرنا شرمناک ہے کیونکہ اسرائیل ناجائز طور پر قائم شدہ مملکت ہے جس نے فلسطین کے علاقہ پر قبضہ کیا ہے ۔ پی وی نرسمہا راؤ دور حکومت تک ہندوستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ سنگھ پریوار کے پسندیدہ اور ان کے ذہنی تربیت یافتہ نرسمہا راؤ نے وزیراعظم کی حیثیت سے سفارتی تعلقات کو استوار کیا ۔ ممبئی میں اسرائیلی قونصلیٹ تھا لیکن نرسمہا راؤ نے دہلی میں باقاعدہ سفارتخانہ کی راہ ہموار کی۔ بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار نرسمہا راؤ نے سفارتی تعلقات قائم کئے لیکن نریندر مودی ان کے حقیقی جانشین کی طرح ہر شعبہ میں اسرائیل سے مدد اور ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔ سرجیکل اسٹرائیک کو اسرائیل کی کارروائیوں سے جوڑنے والے یہ بھول گئے کہ 1967 ء کی جنگ میں اسرائیل نے مصر ، شام اور اردن کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا جو آج بھی اس کے قبضہ میں ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کو جانتے ہوئے بھی مودی کا اسرائیل کا حوالہ ہندوستان کی روایتی موافق فلسطین پالیسی سے انحراف ہے ۔ ہندوستان نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی تائید کی اور آزاد مملکت فلسطین کے قیام اور مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی تخلیہ کی وکالت کی تھی لیکن نریندر مودی کے موقف سے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی تائید کا اشارہ ملتا ہے ۔ راج ناتھ سنگھ اور پھر مودی کے دورہ اسرائیل کے بعد سے دفاعی شعبہ میں تعاون میں اضافہ ہوا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں ، کشمیر میں احتجاجیوں سے نمٹنے کیلئے اسرائیل سے حاصل کردہ ٹریننگ کا استعمال کیا جارہا ہے۔
اب تو ہندوستان نے پاکستان سے متصل سرحد کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کام بھی اسرائیلی ٹکنالوجی سے پورا کیا جائے گا۔ سرجیکل اسٹرائیک اور ا سرائیلی کارروائیوں میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ مغربی کنارے اور غزہ میں اسرا ئیل کی تمام کارروائیاں برسر عام ہوتی ہیں اور دنیا ان کا مشاہدہ اور تصدیق کے موقف میں ہوتی ہے۔ اسرائیل نے کوئی بھی کارروائی خفیہ طور پر نہیں کی۔ ہندوستان کے سرجیکل اسٹرائیک کی سچائی پر ابھی بھی پردے پڑے ہوئے ہیں۔ حکومت نے پارلیمانی پیانل کو ثبوت پیش کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت عوام کے روبرو پیش کیا جائے یا کم سے کم پارلیمنٹ کو واقف کرایا جائے۔ ہندوستان کے سرجیکل حملے خود اپنی سرزمین پر ہوئے کیونکہ یہ ہندوستان کا حصہ ہے جس پر 1948 ء سے پاکستان قابض ہے۔ برخلاف اس کے اسرائیل نے دوسرے ملک کی سرزمین پر کارروائیاں کی ہیں ۔ اس طرح ہندوستان اور اسرائیل کی کارروائیوں میں کوئی مماثلت نہیں ہے ۔ خارجہ سکریٹری جئے شنکر کے اس بیان نے بھی حکومت کو دفاعی موقف میں کھڑا کردیا جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ سابق میں بھی فوج نے اس طرح کی کارروائیاں انجام دی تھیں لیکن حکومتوں نے اس کا ا علان نہیں کیا۔ پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اس طرح کی کارروائی کو منظر عام پر لایا ہے ۔ جئے شنکر کے بیان سے وزیر دفاع کا جھوٹ بے نقاب ہوگیا جس میں انہوں نے پہلی مرتبہ اس طرح کی کارروائیوں کا دعویٰ کیا تھا ۔
سرجیکل حملوں کو آر ایس ایس کی تعلیمات سے جوڑنا وزیر دفاع کی ہندوتوا ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے ۔ اچھا ہوا صرف تعلیمات کا نتیجہ کہا گیا۔ منوہر پاریکر اگر آر ایس ایس کی ٹریننگ کا نتیجہ بھی کہتے تو شاید سنگھ پریوار اسے قبول کرلیتا۔ اگر آر ایس ایس کی تعلیمات فوج میں بہادری کا جذبہ پیدا کرسکتی ہیں تو پھر سیوم سیوکوں کی بہادری اور دیش بھکتی کا کیا عالم ہوگا۔ کیوں نہ ملک کی سرحدوں پر آر ایس ایس کے سیوم سیوکوں کو تعینات کردیا جائے، جس سے اندازہ ہو کہ وہ کتنے سورما ہیں۔فوج کی جگہ آر ایس ایس کارکن دراندازی اور دہشت گرد حملوں کا مستقل طور پر خاتمہ کریں۔ سیوم سیوک نہ صرف سرجیکل اسٹرائیک کریں گے بلکہ پاک مقبوضہ کشمیر کو واپس حاصل کرلیںگے۔ سیوم سیوکوں کی بہادری کا تو یہ عالم ہے کہ سردی کو برداشت نہ کرتے ہوئے اپنی پریڈ کی چڈی کو پینٹ میں تبدیل کرلیا۔ وہ تو دشمن کی گولہ باری کی آواز سے ہی سرحد چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرلیں گے ۔ آر ایس ایس کے پرچارک وزیر دفاع پہلے سیاچن گلیشیئر کی چوٹی اور سرحد پر فوج کے ساتھ کچھ دن گزارکر اپنی بہادری کا مظاہرہ کریں۔ ایرکنڈیشنڈ چیمبر میں بیٹھ کر فوج کے کارناموں کا سہرا کسی کے سر باندھنا آسان ہے۔ منوہر پاریکر اس سے قبل بھی مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ آرا یس ایس اگر واقعی اس قدر محب وطن ہے تو پاریکر ان کے ہیڈکوارٹر پر قومی پرچم لہرا کر دکھائیں۔ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر آر ایس ایس ہیڈکوارٹر پر قومی پرچم لہرانے کی کوئی روایت نہیں ہے ۔ اس تنظیم کا کام ہندوتوا کے نظریات کو عام کرنا ، ملک کو ہندو راشٹرا میں تبدیل کرنے کے ایجنڈہ پر بی جے پی کے ذریعہ عمل کرنا اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی اور انہیں نشانہ بنانا ہے ۔
وزیراعظم اور وزیر دفاع کی عجیب و غریب باتوں اور منطق سے بھلے ہی سنگھ پریوار کو تسلی ہو لیکن ملک کے عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔ ہندوستانی عوام نے ہمیشہ پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات کی روایت قائم کی ہے۔ نریندر مودی اور منوہر پاریکر کی باتیں ہندوستان کی عظیم روایات سے میل نہیں کھا رہی ہیں۔ دراصل دونوں پہلی مرتبہ عظیم عہدوں پر فائز ہوئے ہیں اور انہیں تجربہ کی کمی ہے۔ نریندر مودی چیف منسٹر سے وزیراعظم اور منوہر پاریکر چیف منسٹر سے وزیر دفاع بن گئے اور آج ان کے بیانات ملک کی رسوائی اور جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سرجیکل اسٹرائیک سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کردیا گیا تو پھر سرحد پار سے حملوں اور دراندازی کس طرح ہورہی ہے۔ کشمیر میں روزانہ فوج کے ساتھ دہشت گردوں کی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کیا سرجیکل اسٹرائیک درست ہے یا پھر یہ حملے ؟ سیاسی فائدہ کیلئے بی جے پی حکومت نے فوج کے وقار کو بھی ملحوظ نہیں رکھا۔ فوج کو اپنے حقیر سے سیاسی مفادات کیلئے ہرگز استعمال نہ کیا جائے۔ انتخابات سرحدوں کے مسائل پر نہیں بلکہ عوامی مسائل پر لڑے جائیں۔ اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود اترپردیش میں بی جے پی کو کوئی فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ آج بھی وہاں پارٹی کا موقف کمزور ہے۔ اس کا واضح ثبوت کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے منحرف قائدین کو بی جے پی میں شامل کرنا ہے۔ اترپردیش میں برسر اقتدار سماج وادی پارٹی سے بی جے پی کو سخت چیلنج درپیش ہے اور وزیراعظم نے اسے اپنے وقار کا مسئلہ بنالیا ہے۔ اگر پارٹی مضبوط ہوتی تو منحرف قائدین کو شامل نہیں کیا جاتا۔ اترپردیش میں بی جے پی کا کوئی چہرہ نہیں جو ووٹ حاصل کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک اور رام مندر جیسے موضوعات کو انتخابی فائدہ کیلئے چھیڑدیا گیا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ؎
امیرِ شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلۂ مذہب کبھی بنامِ وطن