امیت شاہ کا انتخاب

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنۂ فریاد آیا

امیت شاہ کا انتخاب
بی جے پی کے صدر کی حیثیت سے امیت شاہ کو دوبارہ منتخب کرلیا گیا ہے ۔ امیت شاہ کی یہ پہلی مکمل معیاد ہوگی جو تین سال کی مدت کیلئے ہوگی ۔ سابقہ معیاد میں امیت شاہ نے راج نات سنگھ کی جگہ سنبھالی تھی ۔ راج ناتھ سنگھ کو بی جے پی کی مرکزی حکومت میںوزارت کا عہدہ دیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے بی جے پی کی صدارت سے استعفی پیش کردیا تھا اور وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ عہدہ اپنے رفیق کار اور گجرات کابینہ کے ساتھی امیت شاہ کو سونپ دیا تھا ۔ امیت شاہ اور نریندر مودی کی جوڑی نے بی جے پی کی باگ ڈور صرف اپنے ہاتھ میںرکھی تھی اور وہ من مانے فیصلے کرنے لگے تھے ۔ امیت شاہ کے انتخاب سے یہ تاثر بھی عام ہو رہا تھا کہ نریندر مودی کسی غیر گجراتی بی جے پی لیڈر پر کوئی بھروسہ نہیں ہے اسی لئے انہوں نے امیت شاہ کو اپنی مرضی سے پارٹی کی صدارت پر فائز کیا ہے ۔ امیت شاہ کو جس وقت پارٹی صدارت سونپی گئی تھی اس وقت ملک کے حالات الگ تھے ۔ بی جے پی کے کیڈر میں بھی مرکز میں اقتدار ملنے کا جوش و خروش تھا ۔ انتخابی مہم کا اثر تھا ۔ ذرائع ابلاغ سے ملنے والی غیر معمولی تائید اور تشہیر نے بھی اس پر اثر کیا تھا اور بی جے پی کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے امیت شاہ اور نریندر مودی کو کسی غیر متوقع مشکل کا سامنا کرنا نہیں پڑا تھا ۔ تاہم مرکز میںا قتدار مل جانے کے بعد سے اس جوڑی کیلئے مشکلات میں پیدا ہونی شروع ہوئی تھیں۔ پارٹی میں اختلاف رائے بڑھنے لگا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اختلاف رائے کو قبول نہیںکیا جا رہا ہے اور اس کو طاقت کے زور سے دبانے کی ہر ممکنہ کوشش کی جا رہی ہے ۔ مرکز میں بی جے پی کو اقتدار ملنے کے بعد امیت شاہ اور نریندر مودی کی جوڑی کو اٹوٹ اور انتہائی مستحکم سمجھا جا رہا تھا لیکن یہ مفروضہ دہلی اسمبلی انتخابات میں قدرے مجروح ہوگیا تھا ۔ یہاں عام آدمی پارٹی نے بے مثال کامیابی حاصل کرتے ہوئے بی جے پی کو سبق سکھا دیا تھا ۔ تاہم بی جے پی نے اس کو قبول نہیں کیا اور گجرات میں وہی تجربہ اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یہاں بھی کسی اور لیڈر کو کوئی اختیار نہیں دیا گیا اور نہ تشہیر میںکسی دوسرے کو حصہ دیا گیا ۔ انتظامی امور پر جہاںامیت شاہ کی گرفت تھی وہیں انتخابی مہم کیلئے صرف اور صرف نریندر مودی پر ہی اکتفا کیا گیا تھا ۔
مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کو بہار میں بھی منہ کی کھانی پڑی تھی اور یہاں بھی بی جے پی یا این ڈی اے کی دوسری حلیف جماعتوں کو کراری شکست ہوئی ۔ جے ڈی یو ۔ آر جے ڈی ۔ کانگریس اتحاد نے یہاں اقتدار حاصل کرلیا تھا ۔ اس کے بعد سے بی جے پی میں تنقیدیں ہونے لگیں اور اختلاف رائے کھل کر سامنے آگیا ۔ بہار کے رکن پارلیمنٹ شتروگھن سنہا ابھی تک پارٹی کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے میں مصروف ہیں تو دوسری جانب بہار ہی کے ایک اور رکن پارلیمنٹ کیرتی آزاد نے پارٹی کے سینئر لیڈر ارون جیٹلی پر تنقید کی اور انہیں دہلی کرکٹ اسوسی ایشن میں بدعنوانیوں اور کرپشن کا ذمہ دار قرار دیدیا ۔ اسی وجہ سے کیرتی آزاد کے خلاف تادیبی کارروائی کا بھی آغاز ہوا ہے ۔ اب بی جے پی کے سامنے بنگال ‘ اتر پردیش ‘ کرناٹک کے علاوہ شمال مشرقی ریاستوں بشمول آسام میں انتخابی کامیابی کا نشانہ ہے ۔ اس مقصد کیلئے ہی نریندر مودی نے اختلاف رائے کو خاطر میںلائے بغیر امیت شاہ کودوبارہ پارٹی صدارت پر فائز کروادیا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق ان انتخابات کا سامنا کیا جائے ۔ انہیں اب بھی یقین ہے کہ مذکورہ بالا ریاستوں کے عوام انہیں ان کی مقبولیت کی اساس پر ووٹ دینگے اور بی جے پی کو ان ریاستوں میں اقتدار حاصل ہوگا ۔ یہ کچھ اتنا آسان نہیں ہوگا ۔ خود امیت شاہ کے سامنے بی جے پی کے قومی صدر کی حیثیت سے ان ریاستوں میں پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی بھاری ذمہ داری ہے لیکن ایسا لگتا نہیں ہے کہ انہوں نے دہلی اور بہار کی شکست سے کوئی سبق سیکھا ہو یا پارٹی کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی ہو۔
اب جبکہ امیت شاہ کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کرلیا گیا ہے یہ معیاد ان کیلئے آسان نہیں ہوگی ۔ سابق معیاد میں جس طرح سے بی جے پی کیلئے حالات انتہائی سازگار تھے فی الحال ویسے حالات نہیں ہیں۔ این ڈی اے حکومت کی اب تک کارکردگی سے عوام میں مایوسی پیدا ہونے لگی ہے ۔ نریندر مودی کی مقبولیت گھٹی ہے ۔ نہ کالا دھن واپس آیا ہے اور نہ ملک میں مہنگائی پر کوئی کنٹرول کیا جاسکا ہے ۔ ملک کی معیشت نے بھی خاطر خواہ رفتار سے ترقی نہیں کی ہے ۔ عالمی مارکٹ میں پٹرول کی قیمتیں انتہائی کم ہونے کے باوجود ملک میں صارفین کو راحت نہیں پہونچائی گئی ہے ۔ ان سب کے دوران پارٹی میں اختلاف رائے بھی ہے ۔ یہ سب کچھ امیت شاہ کی دوسری معیاد کو مشکل سے مشکل ترین بنانے کیلئے کافی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ امیت شاہ اس صورتحال سے کس طرح نمٹتے ہیں۔