مخلص ہے ، درد مند ہے اور باوفا ہے وہ
انسانیت کی لاج کا آئینہ دار ہے
امن نوبل انعام
جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے امن کارکنوں کو اس سال نوبل امن انعام سے نوازا گیا ہے جو سب سے اعلیٰ ترین اعزاز ہے ۔ مگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان قیام امن کا مسئلہ برقرار ہے ۔ ہر دونوں ملکوں کے عوام امن چاہتے ہیں ۔ ہندوستان کے سماجی جہد کار کیلاش ستیارتھی اور پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کو مشترکہ طورپر امن انعام کا حقدار قرار دے کر بے لوث خدمات کے عوض انسانیت کے خاطر دو مختلف علاقوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو یہ اعزاز دراصل تمام کیلئے قابل فخر بات ہے ۔ امن کا معاملہ کسی علاقہ یا مذہب تک ہی محدود نہیں ہوتا ۔ اس لئے امن کے دشمنوں کو یہ سمجھنے کا وقت ہے کہ دنیا بھر میں قیام امن کے لئے کئی تنظیمیں اور کارکن سرگرم ہیں۔ ہندوستان میں بچہ مزدوری کو روکنے کیلئے اندرا گاندھی کے دور سے ہی قوانین بناکر اس پر عمل آوری کی گئی تھی ۔ اس کے باوجود ملک کے مختلف حصوں میں بچہ مزدوری ، بچہ غلامی ، جنسی ہراسانی ، کم عمر کی شادیوں کے ذریعہ بچوں کا استحصال کرنے کے واقعات برقرار ہیں۔ کیلاش ستیارتھی نے بچوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کیلئے ہی بچپن بچاؤ آندولن کا آغاز کیا تھا اور انھوں نے اب تک ہزاروں بچوں کو بچہ مزدوری یا بندھوا مزدوری سے نجات دلائی ہے ۔ ہندوستان میں خاموش خدمات انجام دینے والے کئی افراد موجود ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی خدمات کو اندرون ملک سرکاری ادارے یا خانگی تنظیمیں اعزازات کی نگاہ سے نہیں دیکھتی بلکہ ہندوستانیوں کو اپنے درمیان ممتاز شخصیتوں کی موجودگی کی خبر بیرونی تنظیموں اور ان کے کارکنوں سے ملتی ہے۔ کیلاش ستیارتھی اور ملالہ نے جو کام انجام دیئے ہے اس کیلئے ناروے کی تنظیم نے امن کے نوبل انعام کا مستحق قرار دیا۔ ملالہ یوسف زئی کا تعلق پاکستان کے ضلع سوات سے ہے ۔ سوات میں 2009 ء میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات کشیدہ تھے اور مذہبی رہنماؤں کی ہدایت پر خون ریزی کا بازار گرم کیا گیا تھا ۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ پاکستان میں قیام امن کیلئے جدوجہد کو مستحکم بنانا چاہئے ۔ سوڈان کی اس اکیڈیمی نے اپنے نوبل امن انعام کے ساتھ ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے ۔ کیوں کہ سابق میں ایسی شخصیتوں کو انعام دیا جاتا تھا جن کی خدمات کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کے بشمول مختلف عنوانات سے انجام دی گئی تھیں۔ اس سال غیرمتوقع طورپر ہندوستانی حقوق اطفال کارکن کو دیا گیا جنھوں نے بچوں کو ان کی مصیبت زدہ زندگیوں سے نجات دلائی تھی ۔ کیلاش ستیارتھی نے اترپردیش میں کارپٹ سازی کی یونٹوں میں کام کرنے والے بچوں کا جائزہ لیا اور انھیں بندھوا مزدوری سے آزاد کرایا ۔ ہندوستان کے لئے ایسے انعام اس ملک کے ہزاروں بچوں کی حالت زار کی یاد بھی دلاتا ہے ۔ اس کے علاوہ سرحد پر جاری کشیدگی کے درمیان امن کے ذریعہ سکون بحال کرنے کی بھی ایک شاندار ترغیب ہوتی ہے ۔ جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنا اور ہند و پاک کو بات چیت کی میز پر لانے کیلئے ملالہ نے اس ایوارڈ تقریب میں شرکت کیلئے دونوں وزرائے اعظم نریندر مودی اور نواز شریف کو مدعو کیا ہے ۔ ہندوستان اور پاکستان کو اب ایسا کوئی وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے کہ ان کے درمیان بچوں کے ساتھ ناانصافیاں ہورہی ہوں اور امن و انصاف کا گلہ گھونٹ کر ملک میں ایک افسوسناک کارروائی سے دوچار کررہی ہوں ۔
مودی کی مداح سرائی
مرکز میں نریندر مودی زیرقیادت حکومت کے ثمر سے استفادہ کرنے کی دوڑ میں کانگریس قائدین اور عام آدمی پارٹی کے ارکان کی کوششیں ایک مکروہ سیاسی صورتحال کو جنم دے رہی ہیں۔ کانگریس لیڈر ششی تھرور نے وزیراعظم مودی کے سوچھ بھارت مہم میں شرکت کی دعوت کو قبول کیا اور مودی کی مہم کی زبردست ستائش کی ۔ ان کی یہ حرکت کانگریس کے لئے داخلی انتشار کا باعث بن رہی ہے ۔ دہلی میں سیاست کے اسٹیج پر لیڈر کو رنگ بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔ عام آدمی پارٹی نے جن عوامی مسائل کی یکسوئی کیلئے آواز بلند کرکے پارٹی قائم کی تھی اب یہ تمام مسائل پس پشت ڈالدیئے گئے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی سابق لیڈر شاذیہ علمی نے بھی وزیراعظم نریندر مودی کی ستائش کی ہے تو حکومت کی جانب ان کا جھکاؤ عام آدمی پارٹی کے نظریات اور پالیسیوں کی قلعی کھول دیتا ہے ۔ حکمرانوں اور بااثر طبقہ کی غلامی کرنے کی خواہش رکھنے والوں کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا ۔ کانگریس لیڈر ششی تھرور نے مودی کی تعریف کرکے کانگریس کو دھکہ پہونچایا ہے تو شاذیہ علمی نے مودی کیلئے تعلیمی کلمات کہہ کر ان لوگوں کو مایوس کیا ہے جو عام آدمی پارٹی کی پالیسیوں سے متفق تھے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کی سوچ اور سیاستدانوں کی چال میں فرق ہوتا ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے اپنے ارکان کو روایتی یا سخت گیر سیاستدانوں کی ڈگر سے ہٹ کر تیار کیا تھا ۔ سیاسی شکست کھانے کے بعد عام آدمی پارٹی کے ارکان نے لوک پال ، کرپشن اور کالے دھن کو بھی فراموش کردیا ہے ۔ ہندوستان کو کرپشن سے پاک بنانے کی مہم نریندر مودی کی کرسی کے نیچے دب کر رہ جاتی ہے تو پھر عام آدمی کی اُمیدیں بھی سسک کر دم توڑ دیں گی ۔ جن لوگوں نے عام آدمی پارٹی پر بھروسہ رکھا تھا انھیں شدید صدمہ ہوا ہوگا کہ شاذیہ علمی اور ان کے دیگر ساتھیوں نے مرکز کی مودی حکومت کی ستائش کے ذریعہ اپنا سیاسی مزاج بدل دیا ہے ۔ شاذیہ علمی بھی عام آدمی پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک تھیں جنھوں نے پانچ ماہ قبل پارٹی چھوڑ دی تھی۔ اب وہ مودی کی تائید کررہی ہیںاور یہ کہہ رہی ہیں کہ نریندر مودی واحد لیڈر ہیں جو اس ملک کی قیادت کرسکتے ہیں ۔ عام آدمی پارٹی میں دانشور سیاستداں شامل تھے ان کی صلاحیتوں پر عوام کو بھرپور اعتماد تھا لیکن ان دانشوروں نے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جواب درست نہیں دیئے اور خود بھٹک کر دیگر پارٹیوں کی مداح سرائی میں ملوث ہوگئے ہیں۔ ہندوستان میں اس وقت ایک افسوسناک سیاسی صف بندی شروع ہوئی ہے جو سیکولرازم کو لاحق خطرات میں اضافہ کا اشارہ ہے ۔