انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذات و صفات کی پاکی اور بڑائی بیان کرنا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب انسان کو برائیوں اور گندگیوں سے پاک کرکے بھلائیوں اور خوبیوں سے آراستہ کیا جائے۔ اسی مقصد کے لئے ہزاروں انبیاء و رسل بھیجے گئے اور آخر میں اس مقصد کی تکمیل کے لئے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور دین کی نعمت مکمل ہونے کا مژدہ سنایا۔فرمایا: ’’اے امت محمدیہ! تم افضل امت ہو، تم کو لوگوں کے نفع کے لئے بھیجا گیا ہے۔ تم بھلی باتوں کو لوگوں میں پھیلاتے ہو اور بری باتوں سے ان کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اور چاہئے کہ تم میں ایک ایسی جماعت ہو کہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور بھلی باتوں کا حکم کرے اور بری باتوں سے منع کرے اور صرف وہی لوگ فلاح والے ہیں، جو اس کام کو کرتے ہیں‘‘۔اس امت کو ’’خیرامم‘‘ اس وجہ سے کہا گیا کہ یہ بھلائی کو پھیلانے اور برائی سے روکنے والی امت ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ ’’اس کام کو انجام نہ دینا لعنت اور پھٹکار کا موجب ہے‘‘۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے چہرۂ انور پر ایک خاص اثر دیکھ کر محسوس کیا کہ کوئی اہم بات پیش آئی ہے۔ آپﷺ نے کسی سے کوئی بات نہیں کی اور وضوء فرماکر مسجد میں تشریف لے گئے۔ میں مسجد کی دیوار سے لگ گئی کہ کوئی ارشاد ہو تو سنوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور حمد و ثناء کے بعد فرمایا: ’’لوگو! اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بھلی باتوں کا حکم کرو اور بری باتوں سے منع کرو، مبادا وہ وقت آجائے کہ تم دعا مانگو اور میں قبول نہ کروں، تم مجھ سے سوال کرو اور میں اس کو پورا نہ کروں اور تم مجھ سے مدد چاہو اور میں تمہاری مدد نہ کروں‘‘۔ آپﷺ نے صرف یہ کلمات ارشاد فرمائے اور منبر سے اُترگئے۔ اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ امر بالمعروف کو چھوڑنا اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غصہ کا باعث ہے اور امت محمدیہ اس کام کو چھوڑدے گی تو سخت مصائب و آلام میں مبتلا کردی جائے گی اور ہر قسم کی غیبی نصرت سے محروم ہو جائے گی۔