لائو تو قتل نامہ ذرا ہم بھی دیکھ لیں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
امریکی کمیشن کی رپورٹ
ہندوستان میں نریندر مودی حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد سے مسلسل اقلیتوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ کہیں گھر واپسی کے نام پر غریب اور مفلوک الحال مسلمانوں اور عیسائیوں کو جبرا یا لالچ دے کر ان کا مذہب تبدیل کیا جا رہا ہے تو کہیں گرجا گھروں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ کہیں عیسائی راہباؤں کی عصمت ریزی ہو رہی ہے تو کہیں مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑ دینے اور ایک مقررہ مدت کے اندر ہندوستان کو ہندو مملکت بنانے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ کہیں بی جے پی کو ووٹ نہ دینے والوں کو حرام زادے قرار دیا جا رہا ہے تو کہیں ان کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال جو بتدریج پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد اچانک اس طرح کی طاقتوں نے اپنے عزائم پورے کرنے کی کوششیں اور سازشیں شروع کردی ہیں۔ اس کیلئے ہندوستان کے دستور اور قانون تک کا احترام نہیں کیا جارہا ہے ۔ ملک میں ہر گوشے کی جانب سے اس پر تنقیدیں ہو رہی ہیں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی ایسی کوششوں کی مذمت کی جا رہی ہے ۔ بارہا حکومت کی توجہ بھی مبذول کروائی گئی ہے ۔ کئی موقعوں پر وزیر داخلہ اور وزیر اعظم نے بیان دیا کہ ملک میں سبھی مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائیگا لیکن یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے اور عملا کچھ کیا نہیں جا رہا ہے ۔ مختلف گوشوں سے ہونے والی تنقیدوں کو مسترد تو کیا جارہا ہے لیکن حقیقت کو بدلنا ممکن نہیں ہے ۔ اب امریکہ کے مذہبی آزادی سے متعلق کمیشن نے بھی اسی بات کو واضح کیا ہے اور کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ جب سے گذشتہ انتخابات میں نریندرمودی کی زیر قیادت بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے اس وقت سے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف پرتشد دحملے کئے جا رہے ہیں اور انہیں مذہبی منافرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ویسے تو مودی حکومت ہر کام میں امریکہ سے تعریف و ستائش حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے لیکن اب جبکہ اسی امریکہ کے ایک کمیشن نے اس کو حقیقت کا آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو اس رپورٹ کو مسترد کردیا گیا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ رپورٹ میں حقیقی معنوں میں ہندوستانی روایات کا جائزہ نہیں لیا گیا ۔
امریکی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں واضح انداز میں کہا ہے کہ مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور ان کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع ہوگئی ہے ۔ اس کمیشن نے بھی کافی تاخیر سے یہ تبصرہ کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ دس ماہ سے زیادہ وقت سے اس ملک میں اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ انہیں ذہنی اور ہر طرح کی ہراسانی کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ ان کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ 2021 تک اس ملک سے مسلمانوں کا صفایا کردیا جائیگا اور ہندوستان ایک ہندو مملکت بن جائیگا ۔ کہیں عیسائیوں کی عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ وہاں توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے اور انہیں نذر آتش کیا جارہا ہے ۔ عیسائی راہباوں کی عصمت ریزی کی جا رہی ہے ۔ غریب مسلمانوں کو لالچ دے کر یا پھر دھمکا کر ان کا مذہب تبدیل کیا جارہا ہے ۔ حکومت حالانکہ یہ کہتی ہے کہ اس طرح کے پروگراموں سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن اس کی وجہ سے جو ملک میں ہم آہنگی کا ماحول متاثر ہو رہا ہے اس کو قابو میں رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور ہر ایسی حرکت پر قابو پانا حکومت کا کام ہے جس کی وجہ سے ملک میں منافرت کا ماحول پیدا ہوتا ہو اور جس سے دو فرقوں کے مابین کشیدگی پیدا ہوتی ہو ۔ ہندوتوا کی حامی تنظیمیں اس ملک کے سکیولر تانے بانے کو متاثر کرنے کے در پہ ہیں اور ان پر کوئی بھی روک ٹوک لگانے والا نہیں ہے ۔
مودی حکومت نے امریکہ کے صدر بارک اوباما کو یوم جمہوریہ پریڈ میں مدعو کرتے ہوئے تمغہ حاصل کرنے جیسی خوشی کا اظہار کیا تھا لیکن اوباما نے جاتے ہوئے جو ریمارکس کئے تھے اس سے مودی حکومت بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوگئی تھی ۔ اب اسی امریکہ کے ایک کمیشن کی جانب سے ہندوستان میں مذہبی آزادی پر تحدیدات اور اقلیتوں پر حملوں کے تعلق سے حقائق پر مبنی رپورٹ کی اشاعت کے بعد حکومت کو چاہئے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کے امیج اور وقار کو مزید متاثر ہونے کا موقع فراہم کئے بغیر ہندوتوا کی حامی فاشسٹ نظریات رکھنے والی تنظیموں پر قابو کرے اور انہیں ملک کے سکیولر تانے بانے کو بکھیر نے کی اجازت نہ دی جائے ۔ حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وزیر داخلہ یا وزیر اعظم کی جانب سے صرف خوش کن بیانات کی اجرائی سے کام چلنے والا نہیں ہے انہیں عملی اقدامات سے اپنی سنجیدگی کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا ۔