سیر چمن کو جاتے ہیں اب ان کو کیا خبر
پھولوں میں ایک تارگریباں ابھی تو ہے
امریکی صدارت اور ڈونالڈ ٹرمپ
ڈونالڈ ٹرمپ امریکی صدارت پر فائز ہوگئے ہیں۔ انہوں نے نومبر میں ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور آج انہوں نے دنیا کے طاقتور ترین صدر کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ ٹرمپ کی صدارت نہ صرف امریکہ کیلئے بلکہ ساری دنیا کیلئے اہمیت کی حامل ہے ۔ ان پر اب بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے ۔ انہیں یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ انتخابی مہم کے مرحلہ سے آگے نکل آئے ہیں اور اب ان کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ اہمیت کا حامل ہوگا اور ان کی ہر اقدام دنیا بھر میں دور رس اثرات کا حامل ہوگا ۔ ایسے میں ڈونالڈ ٹرمپ کو ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کی اور ذمہ دارانہ بیانات جاری کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ انہیں محض عوامی مقبولیت حاصل کرنے والا طریقہ کار اختیار کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ان کے سامنے دنیا بھر میں کئی مسائل ہیں۔ اس کے علاوہ خود امریکہ میں ایسے کئی مسائل ہیں جو فوری طور پر ان کی توجہ کے طالب ہیں اور اس میں انہیں انتہائی ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔ اگر وہ اپنے روایتی جارحانہ انداز کو بحیثیت امریکی صدر بھی برقرار رکھتے ہیں تو پھر دنیا کے حالات میں ایسی تبدیلیاں رونما ہونگی جنہیں ہرگز مثبت نہیں کہا جاسکے گا ۔ انہیں دنیا بھر میں امریکہ کے امیج کو بہتر بنانے کیلئے کام کرنا ہوگا ۔ امریکی معاشرہ میں جرائم کی شرح کو کم کرنے پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ حالیہ مہینوں میں امریکہ کے مختلف شہروں میں جو واقعات پیش آئے ہیں وہ ان کی توجہ کے طلبگار ہیں اور ان سے ذمہ دارانہ رول کی توقع کی جا رہی ہے ۔ انہیں امریکی معیشت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں پھیلنے والی برائیوں اور خاص طور پر نراج اور عدم اطمینان کی کیفیت کو دور کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا ۔ انہیں امریکی نوجوانوں اور نو عمر لڑکوں میں بندوق کا کلچر ختم کرنے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں مزید بے گناہوں کی زندگیاں تلف ہونے سے بچ سکیں۔ انہیں امریکی عوام کیلئے روزگار فراہم کرنے کیلئے جامع حکمت عملی تیار کرنی ہوگی اور بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات میں بھی توازن برقرار رکھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا ۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو اس کے نہ صرف امریکہ بلکہ ساری دنیا پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
ٹرمپ کیلئے بیرونی محاذ پر اولین ترجیح مشرق وسطی کے حالات ہونے چاہئیں۔ یہاں اب تک امریکہ کی پالیسیاں واضح طور پر اسرائیل کے حق میں رہی ہیں اور ہر مسئلہ پر عرب ممالک کو نشانہ بنایا گیا ہے اور خاص طور پر فلسطین کے وجود کو ہی ختم کرنے کیلئے کوششیں کی گئی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی ذمہ داری سنبھالنے سے قبل ہی امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کردیا تھا اور اسرائیل بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے بعض دفاتر کو یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کرچکا ہے ۔ یہ ایسے اعلانات ہیں جن کے نتیجہ میں نہ صرف فلسطین ۔ اسرائیل تنازعہ کے حل کی امیدیں کم ہوجائیں گی بلکہ سارے علاقہ پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے ۔ ٹرمپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یروشلم ایک ایسا شہر ہے جس پر فلسطین کے دعوی کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اسرائیل اپنے اقدامات کے ذریعہ فلسطین کو اس حق سے محروم کرنا چاہتا ہے اور اگر امریکہ بھی اس کی تائید کریگا تو اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور جارحیت میں مزید اضافہ ہوگا اور فلسطینی تنازعہ کو حل کرنے کی امیدیں ختم ہوتی جائیں گی ۔ بحیثیت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ خطہ میں حالات کو ابتر ہونے کی بجائے بہتر بنانے کے مقصد سے کوششیں کی جائیں ۔ ہر جارحانہ کارروائی میں اسرائیل کی حمایت کرنا امریکہ کے وقار اور اس کی غیر جانبداری کو داغدار کرتا جارہا ہے اور اس سے بچنے کیلئے ڈونالڈ ٹرمپ کو کوشش کرنی چاہئے ۔ انہیں خطہ میں منصفانہ اور واجبیت کے جذبہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
اسی طرح دوسرے ممالک کے ساتھ بھی انہیں تعلقات میں توازن قائم رکھنا ہوگا ۔ ایران کے ساتھ نیوکلئیر معاہدہ کو ختم کرنے سے گریز کرنا ہوگا ۔ دیگر عرب ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مساوی اہمیت دی جانی چاہئے ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کیلئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک چین کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ ہے اس پر بھی ٹرمپ کو توازن کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔ ایک چین پالیسی پر کوئی نظرثانی کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے اور روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے نام پر دوسرے ممالک کو نشانہ بنانے سے ڈونالڈ ٹرمپ کو گریز کرنا چاہئے ۔ امریکی صدر کی حیثیت میں ان سے یہی توقع رکھی جائیگی ۔