واشنگٹن ۔ 6 مئی (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ نے ایران کو ایک ’واضح اور بے مغالطہ پیغام‘ بھیجنے کے لئے مشرق وسطی میں اپنا ایک جنگی بحری بیڑہ تعینات کیا ہے۔امریکہ کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کا کہنا یہ اقدام ایران کی جانب سے ’متعدد دھمکیوں اور اکسانے والے بیانات‘ کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔خبر رساں ایجنسی نے ایک امریکی سرکاری اہلکار کا حوالے دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ جنگی بیڑے کی تعیناتی امریکی افواج پر ممکنہ حملے کے دعویٰ کی بنیاد پر کی گئی ہے۔جان بولٹن کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی حملے کی صورت میں ’سخت قوت‘ کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔جان بولٹن نے ایک بیان میں کہا کہ ’امریکہ اپنا ابراہم لنکن نامی جنگی بحری بیڑہ اور ببمبار ٹاسک فورس امریکی سینٹرل کمانڈ کے علاقے میں تعینات کر رہا ہے تاکہ ایرانی حکومت کو واضح اور بے مغالطہ پیغام بھیجا جا سکے کہ ہمارے یا ہمارے اتحادیوں کے مفادات پر کسی بھی قسم کے حملے کا سخت قوت کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔‘انھوں نے کہا کہ ’امریکہ ایران سے جنگ نہیں چاہتا، تاہم ہم ایرانی فوج یا خصوصی فوجی دستے پاسداران انقلاب کی جانب سے کسی بھی حملے کا جواب دینے کے لیے مکمل تیار ہیں۔‘یہ جنگی بحری بیڑہ پہلے ہی یورپ میں امریکی اتحادیوں کے ساتھ جنگی مشقوں میں حصہ لے رہا تھا، جو گذشتہ ماہ کے آخر سے جاری ہیں۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ امریکی جنگی بیڑے کو خلیج میں تعینات کیا گیا ہو، اگرچہ اس بار یہ تعیناتی امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر عمل میں آئی ہے۔گذشتہ برس امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایران کے اس یادگار نیوکلیئر معاہدے سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہو گئے تھے جس پر امریکہ اور دیگر ممالک نے 2015 میں اتفاق رائے کیا تھا۔اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے نیوکلیئر پروگرام کو محدود کرتے ہوئے بین الاقوامی مبصرین کو دورے کی اجازت دینے کی آمادگی ظاہر کی تھی جس کے بدلے اسے عائد پابندیوں میں نرمی کا کہا گیا تھا۔گذشتہ ماہ امریکی صدارتی دفتر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ امریکہ ایران سے تیل کی خریداری پر پانچ ملکوں کو دیا گیا عارضی استثنیٰ ختم کر دے گا کیونکہ چین، انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی تب تک ایران سے تیل خرید رہے تھے۔اور اسی وقت امریکہ نے ایران کے خصوصی فوجی دستے پاسداران انقلاب کو غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ان پابندیوں نے تیزی سے ایران کی معیشت میں گراوٹ کی ہے، اس کی کرنسی کو ریکارڈ کم سطح پر لے آئی ہیں اور سالانہ افراط زر کی شرح کو چار گنا بڑھانے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دور کرنے، اور ملک میں حکومت مخالف مظاہروں کو فروغ دیا ہے۔