ہندوستان بالخصوص ریاست تلنگانہ کے سادہ لوح طلباء یہ اُمید باندھ چکے تھے کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ساتھ وہ ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے روشن مستقبل کو حاصل کرلیں گے لیکن امریکی بارڈر سکیوریٹی فورس نے کارآمد ویزا رکھنے کے باوجود کوئی وجہ بتائے بغیر 15دن کے دوران کئی طلباء کو واپس بھیج دیا ہے۔ امریکی قونصل خانہ ہندوستانی طلباء کو اسٹوڈنٹ ویزا تب ہی جاری کرتا ہے جب طلباء امریکی یونیورسٹی میں داخلہ سے متعلق دستاویزات پیش کرتے ہیں۔ ہوم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ 120 کے حصول کے بعد اس دستاویز کی صداقت کی بنیاد پر ہی طلباء کو ویزا ملتا ہے لیکن جب یہ طلباء اسی دستاویز کے ساتھ پورٹ آف انٹری سے گزرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں تو انھیں ہراساں کیا جارہا ہے۔ ایسے واقعات طلباء کے مستقبل کو تاریک بنانے کے لئے کافی ہیں۔ حکومت ہند اور حکومت تلنگانہ کو اس خصوص میں فوری حرکت میں آکر امریکی حکام سے رابطہ قائم کرنا چاہئے۔ اگر امریکہ میں بارڈر سکیوریٹی فورس کے قواعد اور شرائط میں تبدیلی آتی ہے تو اس کی اطلاع متعلقہ قونصل خانے کو ہونی چاہئے تاکہ قونصلر ایسے طلباء کو ایف ون F1 ویزا جاری نہ کرے جن یونیورسٹی کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔
مگر یہاں ایک اور تکلیف دہ حقیقت کا انکشاف ہوا ہے کہ بارڈر سکیوریٹی فورس کے ذمہ داروں نے کلیدی امریکی یونیورسٹیوں اور ممتاز تعلیمی اداروں کے 120 رکھنے والے طلباء کو واپس کردیا ہے بلکہ اس مرتبہ ایسے طلباء بھی وطن واپس کردیئے گئے جو امریکی یونیورسٹی میں زیرتعلیم ہیں اور انھوں نے اپنا پہلا یا دوسرا سمسٹر بھی پورا کرلیا۔ کرسمس کی تعطیلات میں وطن آکر واپس جانے والے طلباء کو بھی ایرپورٹ سے ہی بغیر کسی وجہ کے واپس کردیا گیا۔ H1B ویزا رکھنے والے نوجوانوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک ہورہا ہے تو یہ غور طلب بلکہ اس پر فوری کارروائی کرنے کا تقاضہ پیدا ہوا ہے۔ گزشتہ روز ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی نے شمس آباد ایرپورٹ پر ایرلائنس حکام کی ہراسانی کا شکار طلباء کو رہا کروایا۔ امریکہ سے پریشان ہوکر واپس ہونے والے طلباء کو شمس آباد ایرپورٹ پر مزید ہراساں کیا جارہا ہے تو یہ مرے پر سو دُرّے کے مترادف ہے اس لئے ریاستی حکومت کو ایسے واقعات کے اعادہ نہ ہونے کے لئے فوری حرکت میں آنا چاہئے۔ کئی طلباء و طالبات نے امریکی حکام کی بدسلوکی اور زیادتیوں کی بھی شکایت کی ہے۔ لڑکیوں کو ہتھکڑیاں پہنا کر چھوٹے سیل میں گھنٹوں سارقوں کی طرح محروس رکھنے کی بھی شکایت کی ہے۔
اس طرح کے تکلیف دہ واقعات کو فوری ختم کرنے کے لئے مرکزی وزارت خارجہ کو سخت قدم اٹھانا چاہئے۔ امریکہ کے مختلف ایرپورٹس سے تقریباً 300 طلباء کو واپس کردیا ہے۔ طلباء اور والدین کے لئے یہ تجربہ نہایت تلخ ثابت ہوا۔ جو طلباء قرض لے کر اپنے تعلیمی اخاجات پورا کررہے تھے ان پر مالی بوجھ پڑا ہے۔ ہندوستانی طلباء کو جزوقتی کام کرنے سے بھی باز رکھ کر ان کے تعلیمی اخراجات کو مفقود کردیا جانا ایک طرح کی نفرت پر مبنی مہم ہے۔ امریکی مہذب معاشرہ میں سخت قوانین پر عمل آوری ایک اچھی علامت ہے مگر بیرونی طلباء کو غیر ضروری ہراساں کرنا حقوق انسانی کی دہائی دینے والے امریکہ کو زیب نہیں دیتا۔ دراصل امریکی حکام کے اندر نفرت پر مبنی ذہنیت فروغ پارہی ہے۔ ہندوستان میں جو طلباء امریکہ کا نام سنتے ہی وجد میں آجاتے ہیں ان کے لئے اپنے ہی ملک میں روشن امکانات پائے جاتے ہیں مگر یہاں کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قابل اور ماہر طلباء کے لئے کوئی روشن مواقع نہیں۔ حکومت ہند یا ریاستی حکومتوں نے ہر ادارہ کو رشوت خوری کے اڈے بنادیا ہے اس لئے تعلیمی کیرئیر کے ساتھ ملازمتوں اور اچھے روزگار کا خواب پورا نہیں ہوتا۔ ہندوستانی طلباء خاص کر تلنگانہ اور آندھراپردیش کے طلباء کی بڑی تعداد بیرون ملک حصول تعلیم کے لئے روانہ ہوتی ہے۔ اس مرتبہ امریکی بارڈر سکیوریٹی فورس کی سختیوں کی وجہ سے مسائل اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ متعلقہ محکموں اور حکومت تلنگانہ کے علاوہ مرکزی وزارت خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نازک مسئلہ پر فوری توجہ دیں۔ طلباء کے تعلیمی مستقبل پر امریکی نفرت کی مہر لگنے سے قبل طلباء کا تعلیمی کیرئیر بچالیا جائے۔ امریکی عہدیدار مستعدی کے نام پر طلباء کے مستقبل پر اپنی نفرت کی مہم لگارہے ہیں۔ سیاسی، سماجی اور تعلیمی شعبہ سے وابستہ ماہرین کو اس مسئلہ کی جانب توجہ دے کر فوری مسئلہ کی یکسوئی اور جو طلباء واپس کردیئے گئے ہیں ان کے ویزے بحال کرتے ہوئے نئے طلباء کے لئے بھی آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، مؤثر نمائندگی سے ہی مسئلہ حل ہوگا۔