کابل 27 جنوری ( سیاست ڈاٹ کام ) امریکہ کے افغانستان پر حملے کے زائد از 17 سال بعد پہلی مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور طالبان ایسے کسی اتفاق رائے پر پہونچنے کے قریب آگئے ہیں جہاں طالبان بات چیت کی میز پر آسکتے ہیں۔ تاہم چونکہ امریکی افواج کا انخلاء بھی اس معاملت کا حصہ سمجھا جا رہا ہے ایسے میں یہ اندیشے پیدا ہو رہے ہیں کہ امریکہ کے اخراج سے افغانستان کیلئے صورتحال کیا ہوگی ۔ ملک میں سکیوریٹی فورسیس کو مسلسل جانی نقصانات کا سامنا ہے ۔ حکومت کو انتخابات کے انعقاد کی تیاری کرنی ہے اور عام شہریوں کو تقریبا دو دہوں کے خون خرابہ کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے ۔ کہا گیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے نمائندوں نے حالیہ مہینوں میں کئی ادوار کی بات چیت کی ہے ۔ یہ در اصل تخریب کاروں کو بات چیت کی میز پر لانے کیلئے سفارتی کوششوں کا حصہ ہے ۔ فریقین کے مابین آخری دور کی بات چیت ہفتہ کو قطر میں ختم ہوئی جہاں چھ دن تک مذاکرات ہوتے رہے ۔ دونوںفریقین کے مابین یہ اب تک کی طویل ترین بات چیت تھی ۔ سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات اور پاکستان نے بھی بات چیت میں حصہ لیا ہے تاہم افغان حکومت نے شکایت کی ہے کہ اس سارے عمل سے اسے دور کردیا گیا ہے ۔ عسکریت پسندوں اور مصالحت کاروں کے مابین کہا جا رہا ہے کہ کچھ اہم مسائل پر پیشرفت ہوئی ہے اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے افواج کی دستبرداری پر سب سے زیادہ بات چیت ہوئی ہے ۔